فاٹا کے انضمام کا تاریخی فیصلہ 

386

آخر کار برسوں پرانا ایک مسئلہ حل ہوگیا اور علاقہ غیر کے لوگ بھی اپنے ہوگئے۔ گزشتہ جمعرات کو 31 ویں آئینی ترمیم کے تحت قومی اسمبلی میں بھاری اکثریت سے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کا بل منظور کرلیا گیا اور اس طرح انگریز کے نوآبادیاتی دور کا خاتمہ ہوگیا۔ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ قومی اسمبلی میں سیاسی جماعتیں کسی مسئلے پر اتنے جوش و خروش سے متفق ہوئی ہوں۔ اب تک قبائلی علاقوں کا انتظام صدر اور پولیٹیکل ایجنٹ کے ذریعے بلایا جارہا تھا اور قبائلیوں کو ہر طرح سے پاکستانی معاملات سے دور رکھا گیا تھا حتیٰ کہ وہ قانونی معاملات کے لیے عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ سے رجوع بھی نہیں کرسکتے تھے۔ اس سے پہلے پاکستانی عدالتوں کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھانے کی منظوری دی جاچکی ہے۔ یہ قبائلی علاقے اور قبائلی عوام وہ ہیں جن کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستانی سرحدوں کا محافظ قرار دیا تھا۔ ان کو پاکستان سے کاٹ کر رکھنے کی وجہ سے قبائلیوں میں احساس محرومی پیدا ہورہا تھا جس کا فائدہ پاکستان دشمن طاقتیں اٹھاتی رہی ہیں۔ افغانستان سے پیوست علاقوں کی وجہ سے افغانستان میں چھپے ہوئے دہشت گرد یہاں نفوذ کرتے رہے ہیں اور تو پاکستان کے جرائم پیشہ افراد وہاں پناہ حاصل کرتے رہے ہیں۔ فوجی آپریشنوں کی وجہ سے بڑی حد تک یہ علاقے صاف ہوچکے ہیں اور اب پاکستان کا حصہ بن جانے کی وجہ سے وہاں پر قانون کی عملداری زیادہ آسان ہوجائے گی۔ قبائلی علاقوں کے عوام اپنے مسائل اسمبلیوں میں اٹھاسکیں گے۔ اور پختونوں کے تحفظ کے نام پر چلنے والی تحریک بھی کسی ضابطے کے اندر آجائے گی ورنہ تو پختون تحفظ کے نام پر اٹھنے والی تحریک خطرے کی حدود میں داخل ہورہی تھی اور اس بہانے پاک فوج کے خلاف نعرے لگ رہے تھے۔ یہاں پر یہ نشاندہی ضروری ہے کہ قبائلی علاقوں اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ناروا اور بسا اوقات توہین آمیز سلوک کی شکایات عام ہیں۔ قومی اسمبلی میں پیش کردہ مذکورہ بل کے خلاف صرف ایک ووٹ بڑا اور جمعیت علماء اسلام اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے احتجاجاً اسمبلی سے واک آؤٹ کیا۔ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور پختونخوا میپ خود پختون اور پختونوں کے حقوق کے علم بردار ہیں۔ ایسے میں ان کی مخالفت کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ مولانا فضل الرحمن پہلے ان سے فاٹا کے انضمام کی مخالفت کرتے رہے ہیں حالانکہ دونوں مذکورہ جماعتیں مرکز میں حکمران ن لیگ کی اتحادی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا اصرار ہے کہ پہلے قبائلی عوام کی رائے حاصل کی جائے، ان کا موقف معلوم کرکے پھر کوئی فیصلہ کیا جائے اور جلدی کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ حیرت ہے کہ 1947ء سے لٹکا ہوا یہ معاملہ 70 برس اور طے پانا اب بھی عجلت سمجھا جارہا ہے۔ جہاں تک فاٹا کے عوام کی رائے معلوم کرنے کی بات ہے تو ایک عرصے سے ان کی نمائندگی اسمبلیوں میں موجود ہے اور ان کا اصرار رہا ہے کہ انہیں بھی پاکستان کا حصہ بنایا جائے۔ اگر عوام قبائلیوں کی بات کی جائے تو کہیں سے بھی اس کیخلاف کوئی موثر آواز نہیں اٹھی ہے۔ اس پس منظر میں مولانا فضل الرحمن کا موقف مضبوط نہیں ہے۔ اس مخالفت سے انہیں کوئی سیاسی فائدہ ملتا ہوا بھی نظر نہیں آرہا۔ اس کے رعکس موقف اختیار کرتے تو صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سیاسی حیثیت بہتر بنائی جاسکتی تھی۔ جہاں تک فاٹا کے عوام کا تعلق ہے تو انہوں نے قومی اسمبلی سے بل منظور ہونے پرجشن منایا اور افطار میں مٹھائی تقسیم کی۔ قبائلی عوام نے ساتھ دینے پر سیاسی جماعتوں کا شکریہ بھی ادا کیا۔ مولانا فضل الرحمن اس وقت متحدہ مجلس عمل کے صدر بھی ہیں اور مجلس کے جنرل سیکریٹری کا منصب جماعت اسلامی کے پاس ہے جس کی بھرپور کوششیں فاٹا کے انضمام میں شامل رہی ہیں۔ چنانچہ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے بل کی منظوری پرمبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ قبائلی کو دوسری آزادی ملی ہے۔ ایف سی آر جیسے ظالمانہ قانون کے خاتمے کے لیے جماعت اسلامی کی جدوجہد رنگ لائی ہے۔ اس میں کوئی شبہ بھی نہیں کہ فاٹا کے انضمام کے لیے سب سے موثر آواز جماعت الامی ہی کی تھی۔ قومی اسمبلی کے بعد جمعہ کو سینیٹ نیبھی بل کی منظوری دیدی ہے۔ بل کے تحت آئندہ 5 سال تک فاٹا میں قومی اسمبلی کی 12 اور سینیٹ میں 8 نشستیں برقرار رہیں گی اور فاٹا کے لیے مختص صوبائی نشستوں پر انتخابات آئندہ سال ہوں گے۔ این ایف سی کے تحت فاٹا کو 24 ارب روپے کے ساتھ سالانہ100 ارب روپے اضافی ملیں گے اور 10 سال کے لیے دس کھرب روپے کا خصوصی ترقیاتی فنڈ ملے گا۔ وزیراعظم کا یہ کہنا بجا ہے کہ قومی اسمبلی نے تاریخی بل پاس کیا ہے جس کے نتائج مثبت ہوں گے۔ ان مثبت نتائج سے مسلم لیگ ن بھی مستفید ہوگی۔