کیا نواز شریف اپنے مستقبل سے مایوس ہوگئے؟

378

سابق و نااہل وزیراعظم نواز شریف نے تقریباً 10 ماہ بعد اپنے ہی سوال ’’مجھے کیوں نکالا کا جواب دیدیا‘‘ جس سے ایسا تاثر مل رہا ہے کہ وہ اب احتساب عدالت میں زیر سماعت ریفرنسوں کے نتائج اپنے حق میں نکلنے سے مایوس ہوچکے ہیں۔ اس مایوسی کے بعد اب وہ فوج کو مزید بدنام کرنے کا آخری کارڈ کھیلنے لگے ہیں۔ انہیں شاید یہ یقین ہو کہ ایسا کرنے سے قوم کے دلوں میں ان کے لیے جگہ بن جائے گی اور آئندہ انتخابات کے بعد دوبارہ عوامی عہدوں کے لیے اہل ہوجائیں گے۔ لیکن عام خیال ہے کہ نواز شریف ایسا کرکے خود اپنی بدنامی میں اضافہ کررہے ہیں بلکہ تیزی سے بند گلی کی طرف جارہے ہیں۔
23 مئی 2018 کو ہونے والی سماعت کے دوران عدالت نے نواز شریف سے استفسار کیا کہ آپ کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کیوں دائر کیا گیا، جس پر نواز شریف نے کہا کہ ان کے خلاف دائر ریفرنسز اور اسلام آباد میں ہونے والے دھرنے ان کی جانب سے مشرف کے خلاف کی جانے والی قانونی کارروائی کا ردِ عمل تھے۔ نواز شریف کے اس جواب کے برعکس یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کے 28 جولائی 2017 کو دیے گئے پاناما پیپرز کیس کے فیصلے میں دی گئی ہدایت پر قومی احتساب بیورو (نیب) نے شریف خاندان کے خلاف 3 مختلف ریفرنس احتساب عدالت میں دائر کیے تھے، جن میں ایون فیلڈ ریفرنس، العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس شامل ہیں۔
عدالت میں پیشی کے بعد ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ: ’’میں اپنے ان سوالات کا اعادہ کرنا چاہتا ہوں جو میں نے گزشتہ برس اگست میں آل پاکستان وکلا کنونشن سے خطاب کے دوران اٹھائے تھے جن کے جواب انہیں آج تک نہیں ملے ہیں‘‘۔ وہ سوال درج ذیل ہیں۔
کیا کبھی ایسا ہوا کہ جس پٹیشن کو دو مرتبہ فضول قرار دیا گیا ہو وہ اچانک معتبر ہوجائے؟
کیا کبھی اس طرح کے معاملات میں خفیہ ایجنسیوں کے اہل کاروں کو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کا حصہ بنایا گیا ہے؟
کیا کبھی جے آئی ٹی کے ارکان کے انتخاب کے لیے واٹس ایپ کالز کی گئیں اور مخصوص افراد کو جے آئی ٹی کا حصہ بننے پر دباؤ ڈالا گیا؟
کیا آج تک عدالت عظمیٰ کی کسی بینچ نے جے آئی ٹی کے کام کی نگرانی کی ہے؟
کیا کسی بھی درخواست گزار نے اپنی پٹیشن میں کسی دبئی کمپنی یا پھر میرے اقامے کی بنیاد پر مجھے نااہل قرار دینے کی درخواست کی تھی؟
کیا کوئی عدالت ملک کے واضح قانون اور ضابطوں کی موجودگی اور اس کسی لفظ کی قانونی تشریح ہوتے ہوئے، اس لفظ کی من مانی تعبیر کے لیے کسی گم نام لغت کا سہارا لے سکتی ہے؟
کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ ایک ہی مقدمے میں کبھی دو، کبھی تین یا کبھی 5 جج صاحبان کی جانب سے علیحدہ علیحدہ فیصلے سامنے آئے؟
کیا ان 2 ججوں کو اس پانچ رکنی بینچ کا حصہ ہونا چاہیے تھا جو پہلے ہی میرے خلاف فیصلہ سنا چکے ہیں۔
کیا عدالتی تاریخ میں کسی بھی عدالت عظمیٰ کے جج کو نیب کی کارروائی کے لیے نگراں جج مقرر کیا گیا ہو جب کہ وہ جج پہلے ہی میرے خلاف فیصلہ سنا چکا ہے۔
نواز شریف کے سوالات اپنی جگہ لیکن قوم بھی ان سے سوال کررہی ہے کہ نواز شریف نے پہلے جھوٹ کیوں بولا اور اب مقدمات پر سوال کیوں اٹھادیے؟
کیا نوازشریف اپنے مستقبل سے مایوس ہوگئے؟
خیال ہے کہ میاں صاحب کو اپنی جلد قید کا یقین ہوگیا ہے۔ تب ہی انہوں نے ہنگامی پریس کانفرنس کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ان کو قانون پر عمل درآمد کرتے ہوئے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کرنے کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان ہی وجوہ کے باعث انہیں وزارت عظمٰی سے نکالا گیا بعدازاں پارٹی کی صدارت سمیت کسی بھی عہدے کے لیے انہیں نااہل کردیا گیا۔ پریس کانفرنس کے دوران مجھ سمیت کئی صحافیوں اور تجزیہ نگار یہ سوچ رہے تھے کہ نوازشریف کو ان دنوں کون مشورہ دے رہا ہے؟ عدالت میں پیشی کے بعد نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے ٹویٹ کیا تو اس سوال کا امکانی جواب مل گیا۔ مریم نے ٹویٹ کیا کہ: ’’آج نواز شریف نے نہ صرف قوم کو یہ بتا دیا کہ انہیں کیوں نکالا بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ انہیں کس نے نکالا‘‘۔ نوازشریف پریس کانفرنس ختم کرتے ہی صحافیوں کے سوالات سنے بغیر ہی ایسے ہال سے چلے گئے جیسے کوئی عام شخص الٹی سیدھی باتیں کرکے سخت ردعمل کے ڈر سے موقع سے بھاگ جاتا ہے۔ یقیناًانہیں صحافیوں کے سخت سوالات کا ڈر ہوگا۔ نواز شریف کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ جس فوج کے خلاف انگلیاں اٹھا رہے ہیں اس کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اسی فوج کے چیف ہیں جس کے چیف آپ کے ’’منہ بولے ابو‘‘ جنرل ضیاء الحق تھے۔ پاک آرمی کے جنرلوں کے خلاف آپ کی تنقید پر ضیاء الحق کی روح بھی تڑپ اٹھی ہوگی۔ میاں صاحب آپ نے پریس کانفرنس کے دوران اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ: ’’میرے ماتحت ایک اہم ادارے کے سربراہ کی طرف سے مجھے پیغام دیا گیا تھا کہ: ’’مستعفی ہوکر ملک چھوڑ کر چلے جائیں‘‘۔ اس بات پر لوگ حیران ہیں کہ بھاری مینڈیٹ سے وزیر اعظم کی سیٹ پر بیٹھ کر دشمن ملک کے وزیراعظم نریندر مودی کو بغیر طے شدہ پروگرام کے لاہور بلانے والا وزیراعظم اتنا کمزور کیسے ہوسکتا ہے کہ اتنی اہم بات پر خاموش رہا اور اس بات کو 3 سال بعد سامنے لایا۔ کیا اس وقت وہ قانون یاد نہیں آیا جس کا واویلا آج مچایا جارہا ہے۔ یقیناًاس وقت کچھ ’’دال میں کالا‘‘ ہوگا۔ اگر کسی وجہ سے اس معاملے پر اس وقت خاموش رہے تو آج کس وجہ سے بول پڑے؟
نواز شریف صاحب آپ آج چیخ چیخ کر ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے لگارہے ہیں لیکن جب قومی اسمبلی میں پاناما پیپرز اسکینڈل کے حوالے سے جھوٹ پر مبنی خطاب کیا، اس وقت آپ کو ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا خیال تک کیوں نہیں آیا؟ کیوں کہ آپ طاقت کے نشے میں جھوٹ اور سچ کے فرق کو بھلا چکے تھے؟۔ حالاں کہ اسی ووٹ کے ذریعے تو آپ اپنے حلقے سے قومی اسمبلی کے ایوان میں اور ایوان سے ووٹ لیکر وزیراعظم بنے تھے۔ آج آپ اپنے اثاثوں کے بارے وہ سب کیسے بھول گئے جو قومی اسمبلی کے معزز ارکان سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا؟
اللہ کا نظام ہے کہ وہ ہر ایک کو ایک حد تک چھوٹ دیتا ہے اور جب اس کی لاٹھی چلتی ہے تو پھر کچھ اور نہیں چلتا۔ کرپٹ اور جھوٹے لوگوں کا دماغ بھی نہیں۔ اس لیے صرف اعتراف اور توبہ کا راستہ کھلا رہ جاتا ہے۔ لیکن کیا لوٹ مار کرنے والے اور جھوٹ بولنے والے اب ملک کے 22 کروڑ عوام کے سامنے اعتراف گناہ کرسکیں گے؟ قوم کو اس سوال کے جواب کا ہمیشہ ہی انتظار رہے گا۔