لاپتا افراد اور پولیس کارروائی

295

سندھ ہائی کورٹ نے لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت میں پولیس کی کارروائی کو فرضی قرار دے دیاہے ۔ جسٹس آفتاب گورڑ کا کہناہے کہ لاپتا افراد کی بازیابی کی کسی کو فکر نہیں ہے ۔انہوں نے ریمارکس دیے کہ سندھ پولیس کا ترجمان عدالت میں سونے اور گپیں لگانے کے لیے آتا ہے ۔ سندھ اور خاص طور پر کراچی میں ایک عرصے تک بوری بند لاشوں کا سلسلہ چلتا رہا ،جس میں بے شمار لوگ ہلاک ہوئے ۔اس کے بعد جب کراچی میں آپریشن شروع ہوا تو یہ سلسلہ توتھم گیا ،تاہم لوگوں کا غائب ہونا جاری ہے ۔ پہلے لاپتا افراد کے اہل خانہ کو لاش وصول کرکے کچھ قرار آجاتا تھا ،لیکن اب کئی کئی برس تک گھر والوں کو اپنے پیاروں کی کوئی خبر نہیں ہوتی اوروہ روزانہ پل پل مرتے ہیں ۔ چند ماہ قبل وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے پارلیمان میں رپورٹ پیش کی تھی ،جس کی رو سے مجموعی طور پر ملک میں لاپتا ہونے والے افراد کی تعداد1640ہے ، جب کہ سندھ میں142افراد تاحال لاپتا ہیں ۔عام طور پر اس طرح کے معاملات میں حکومتی اداروں کو ذمے دار قرار دیا جاتا ہے کہ وہ تفتیش کی خاطر مطلوبہ افراد کو اٹھا لیتے ہیں۔ جب سے ایس پی ملیر راؤ انوار کے ماورائے عدالت قتل کا انکشاف ہوا ہے ،اس موقف کو مذید تقویت ملی ہے ۔سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے کارروائی کو فرضی قرار دیے جانے کا مطلب ہے کہ عدالت بھی پولیس کے ہتھکنڈوں سے واقف ہے ۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ تحقیقات بھی پولیس ہی سے کرائی جارہی ہے ۔پولیس حکام نے عدالت کے سامنے یہ کہہ کر ہاتھ کھڑے کردیے کہ اس حوالے سے خیبر پختوا اور حساس اداروں کو خطوط لکھے گئے ہیں ، لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہو ا ۔ عدالت کی نظر میں پولیس کی کارروائی اگر واقعی فرضی ہے تو جج صاحب سے گزارش ہے کہ سب سے پہلے حکومتی اداروں کے درمیان کمیونیکیشن لائن کی تحقیقات کرالی جائے ۔ ممکن ہے اس کے بعد کراچی ہی سے تمام لاپتا افراد بازیاب ہوجائیں ۔عام تاثر تو یہ ہے کہ لاپتا افراد ایجنسیوں کے قبضے میں ہیں اور ملک کے مختلف عقوبت خانوں میں رکھے گئے ہیں۔ صورتحال بڑی تکلیف دہ ہے کہ گھر والوں کے سامنے سے باوردی اور بے وردی اہلکار ان کے پیاروں کو اٹھاکر لے جاتے ہیں اور پھر کوئی سراغ نہیں ملتا۔ قانون کے رکھوالے ہی قانون کو پامال کررہے ہیں۔