امن، ترقی اور خوشحالی کا نسخہ 

300

عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوگیا ہے۔ اور خدا کرے کہ تمام مراحل بخیر و خوبی طے ہوجائیں۔ کئی پارٹیاں اس گمان میں ہیں کہ بس اقتدار کا ہما انہی کے سر پر بیٹھے گا۔ ہر ایک اپنا اپنا منشور پیش کررہا ہے اور دوسری طرف سے اس پر تنقید کا سلسلہ بھی جاری ہے کہ یہ پارٹی کچھ نہیں کرسکے گی، جو کچھ کریں گے وہ ہم کریں گے۔ بیشتر منشور ایسے ہیں جن میں کوئی نئی بات نہیں بس وعدے ہی وعدے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان ایک طرف تو چین کی مثال دیتے ہیں دوسری طرف وہ ریاست مدینہ کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہیں۔ مسلم لیگ ن اپنے کاموں کی بنیاد پر انتخاب جیتنے کی دعویدار ہے اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کہتے ہیں کہ ترقی دیکھنا ہو تو آکر سندھ میں دیکھو۔ یہاں 25 مئی ہی کو تھر کے علاقے میں مزید 8 بچے غذائی قلت کا شکار ہوکر دم توڑ گئے۔ اگلے دن مٹھی میں مزید 5 بچے چل بسے۔ چھاچھرو میں غذائی قلت کی وجہ سے 34 بچے دم توڑ گئے۔ یہ تو ترقی کی معمولی سی مثال ہے ورنہ سندھ کا ہر شہر پیپلزپارٹی کے طویل اقتدار کی دہائی دے رہا ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں کیا لے کر عوام کے سامنے جارہی ہیں؟ لبرل اور سیکولر جماعتیں تو نعرے کی حد تک بھی اسلامی نظام کے نفاذ کی بات کرنے سے کتراتی ہیں۔ تاہم امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے گزشتہ جمعرات کو ثمر باغ میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ملک میں نفاذ شریعت کے بغیر امن، ترقی اور خوشحالی نہیں آسکتی۔ وفاق قومی مالیتی کمیشن کا اجلاس بلا کر صوبوں کو وسائل کی تقسیم یقینی بنائے‘‘۔ نفاذ شریعت کی بات ایسی ہے کہ جب بھی پاکستان میں اس حوالے سے کوئی سروے ہوا تو عوام کی بھاری اکثریت نے اس کی تائید کی مگر حکمران ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شرعی احکامات کا تعلق صرف تعزیرات سے ہے لیکن اسلام تو مکمل ضابطہ حیات ہے جس کا دائرہ سیاست، زراعت، معیشت، امن و امان، داخلہ و خارجہ پالیسی سب پر محیط ہے۔ تمدن اور معاشرت میں جو نئے نئے سوالات اٹھے ہیں ان کا حل بھی قرآن و سنت میں موجود ہے۔ جہاں تک قومی وسائل اور ان کی تقسیم کا سوال ہے تو پاکستان سمیت پورے عالم اسلام کے پاس اتنے وسائل ہیں جن کے صحیح استعمال سے عالمی استعمار کے جبر اور من مانی سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ وسیع معدنی ذخائر کو نجی ملکیت میں دینے کے بجائے اسلام نے ان کو عوامی ملکیت قرار دیا ہے جن سے حاصل ہونے والی تمام دولت کو عوام کی ضروریات پر خرچ کیا جائے۔ مسند احمد میں رسول اکرمؐ کا فرمان ہے کہ مسلمان تین چیزوں میں برابر کے شریک ہیں : پانی، چراہگاہیں اور آگ (توانائی)۔ لیکن ان وسائل پر نجی ملکیت کی اجارہ داری ہے۔ کیونکہ بھاری سرمایہ درکار ہوتا ہے۔ اسلام نے نجی ملکیت کو محدود کیا ہے۔ اور بھاری سرمائے والی کمپنیوں میں ریاست کو زیادہ وسیع کردار عطا کیا ہے تاکہ ریاست ان شعبوں سے حاصل ہونے والی دولت عوام کے امور پر خرچ کرے لیکن پاکستان میں تو بیت المال میں بھی خورد برد عام ہے۔ عوام پر سودی قرضے بڑھتے جارہے ہیں۔ اب جو جماعتیں اسلامی نظام کے نفاذ کی خواہش مند ہیں وہ اپنے منشور میں ریاستی اور عوامی اثاثوں میں رعایا کو شریک کرنے کا مطالبہ بھی کریں۔ ریکوڈک کے بے پناہ ذخائر کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ اس سے کچھ حاصل کرنے کے بجائے الٹا جرمانہ ادا کرنا پڑرہا ہے۔ جمہوریت بظاہر ایک اچھی طرز حکمرانی ہے لیکن مسلمانوں کے پاس ان کا اپنا جامع اور مکمل نظام موجود ہے جو خالق کائنات کا عطا کردہ ہے۔۔ ایک مشین بنانے والا ہی اس کی خوبیوں اور خامیوں سے واقف ہوتا ہے۔ جس نے انسان کو تخلیق کیا وہ ہی خوب جانتا ہے کہ اس کے لیے کیا صحیح ہے کیا غلط۔ دینی سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں قومی وسائل پر عوام کی ملکیت اور سودی قرضوں کی مخالفت ضرور شامل کریں۔ فتح و شکست تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔