اندر کی بات باہر کیوں نکلی…..

391

کئی حلقوں کی جانب سے شکوہ کیا جارہا ہے کہ میاں نواز شریف نے ذہنی دیوالیہ پن کا ثبوت دیا ہے۔ اقتدار کے چکر میں قومی اداروں پر حملے کررہے ہیں، اہم دفاعی راز کھول رہے ہیں، بات بھی زیادہ غلط نہیں اندر کی بات باہر کیوں نکلی۔ لیکن میاں نواز شریف ہیں کہ ہر روز نیا شوشا چھوڑ دیتے ہیں، اب تو کھل کر بتادیا کہ عمران خان کے دھرنے کے دوران خفیہ ادارے کے سربراہ نے مجھ سے استعفا مانگا تھا، مجھ پر کرپشن ریفرنسز پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی سزا کے طور پر دائر کیے گئے۔ نواز شریف نے تو بہت کھل کر کہا کہ فوج اور سیکورٹی اداروں کے افسران نے دھمکایا، کہا گیا کہ اس پتھر کو نہ چھیڑو بصورت دیگر خود ملیامیٹ ہوجاؤ گے۔ اس کی تصدیق دوسری خبر سے ہوتی ہے کہ میاں نواز شریف کو مستعفی ہونے کا پیغام اسحاق ڈار کے ذریعے بھجوایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ایک بڑے بزنس ٹائی کون کا نام لیا جارہا ہے۔ خبر کے مطابق میاں نواز شریف نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو صورت حال سے آگاہ کردیا تھا۔ لیکن خبر رساں ادارے اس کے آگے خاموش ہیں کہ پھر جنرل راحیل شریف نے کیا کہا….. بہرحال میاں نواز شریف کے اس انکشاف پر ایک ہنگامہ برپا ہے کہ ان کے پہلے بیان سے امریکا اور بھارت خوش ہیں اب پھر فوج کے خلاف بیان دے کر وہ قومی ادارے کا وقار مجروح کررہے ہیں۔ بات واقعی درست ہے ایسے الزامات لگانے سے کیا فائدہ۔ صرف پاکستانی فوج کو بدنام کرکے نواز شریف بھارت اور امریکا کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہاں ایک بڑا سوال ہے…. اندر یہ غلط کام ہو کیوں رہے تھے۔ ابھی حال ہی میں اصغر خان کیس اصغر خان کی موت کے ایک سال بعد کھولا گیا ہے۔ جس میں انکشاف ہوا کہ آرمی چیف کے حکم پر سیاستدانوں میں رقم تقسیم کی گئی تھی۔ اب کوئی یہ پوچھے کہ عدالت میں ایسے بیانات دے کر فوج کو کیوں بدنام کیا جارہا ہے۔ لیکن کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کرنا فوج کا کام تھا، کیا فوج کو یہ حق حاصل ہے۔ کیا خفیہ ایجنسی کا سربراہ منتخب وزیراعظم کو اپنے لاڈلے کے دھرنے کے دوران استعفا دینے کا پیغام بھجواسکتا ہے۔ اگر یہ درست ہے تو کوئی یہ بھی پوچھے کہ خفیہ ایجنسی کے سربراہ نے ایسا کیوں کیا؟ اور آرمی چیف نے معاملہ سننے کے بعد اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا۔
لیکن حیرت انگیز طور پر پورا میڈیا اور سارے دانشور ایک ہی قوال الاپ رہے ہیں کہ اندر کی بات باہر کیوں نکلی اور آپ اندر جو چاہے کرتے رہیں۔ بس خرابی یہی ہے کہ ہم اندر بیٹھ کر جو چاہے کریں بات باہر نہیں جانی چاہیے، یہ بیماری کی جڑ ہے اگر تمام ادارے اپنی حدود میں رہیں، ہر ایک کا محتسب موجود ہے سیاستدانوں کا احتساب عوام کرسکتے ہیں لیکن میڈیا، عدالتوں، دھرنوں اور جعلی تجزیوں کے ذریعے کسی کو اونچا کسی کو نیچا بنایا جاتا ہے۔ اگر یہاں اتحاد بنانے اور توڑنے کے لیے بینکوں سے پیسے نکال کر تقسیم کیے جاتے ہیں تو یہ بھی غلط ہے اگر منتخب وزیراعظم سے استعفا طلب کیا جاتا ہے تو بھی غلط ہے۔ یہ باتیں اگر باہر آجائیں تو غلط کیوں ہیں اور جو اندر کی باتیں میاں نواز شریف کررہے ہیں وہ اتنی اندر کی بھی نہیں تھیں جن کی وجہ سے پاکستان کی جگ ہنسائی ہوجائے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں فوج اور اس کے ادارے سیاسی جماعتوں کو کس طرح کنٹرول کرتے ہیں، ٹی وی چینلوں کو کس طرح قابو میں رکھتے ہیں، کسی کو ہر طرح کے کاروبار پر چھوٹ ملتی ہے، کسی کو ٹیکس کی رسید غائب ہونے پر سزا ہوجاتی ہے، کسی کا جھوٹ غلطی قرار پاتا ہے اور کسی کی غلطی جھوٹ۔ میاں نواز شریف کے سارے بیانات جنرل اسد درانی سے لے کر آئی ایس پی آر اور دیگر سیاستدان پہلے ہی بول چکے ہیں اب میاں نواز شریف نے دہرا دیے تو کیا ہوا۔ یہ جو اصغر خان کیس سے کیا دنیا واقف نہیں۔ لیکن خوامخواہ میں اس پر اب کام ہورہا ہے۔ کیا جنرل پرویز مشرف اور میاں نواز شریف کے اختلافات کا کسی کو علم نہیں۔ کیا دنیا نہیں جانتی کہ کارگل میں کیا ہوا۔ اب جنرل اسد درانی بھارتی انٹیلی جنس سربراہ کے ساتھ مل کر غیر ضروری انکشافات کررہے ہیں، کیا یہ غداری کے ضمن میں نہیں آتے۔
اب سوال یہ ہے کہ اندر کی کون سی بات باہر نہیں آنی چاہیے اور کون سی باہر آنی چاہیے۔ باہر آنے والی کون سی بات جائز ہے اور کون سی ناجائز۔ اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ اب جنرل اسد درانی کے انکشافات اور اعترافات کو دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ جنرل اسد درانی پاک فوج کے سارے منصوبوں اور سرگرمیوں کو غلط ثابت کرتے نظر آرہے ہیں جب کہ اے ایس دولت اپنے اداروں پر تنقید بھی اس طرح کررہے ہیں کہ ان کی تعریف کا پہلو نکل رہا ہے۔ مثال کے طور پر وہ لکھتے ہیں کہ بھارت میں ’’را‘‘ اور آئی بی مل کر کام کرتے ہیں جب کہ پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔ اگلا جملہ غیر ضروری تھا۔ لیکن یہ بھارتی انٹیلی جنس چیف ہے وہ اپنا کام ضرور کرے گا، ہمارا انٹیلی جنس چیف کیا لکھتا ہے ملاحظہ فرمائیں۔ کارگل احمقانہ منصوبہ تھا، بلوچستان میں بھارت سے زیادہ امریکا ملوث ہے، آفریدی کی نشاندہی انٹیلی جنس افسر نے کی وہ اب بیرون ملک ہے۔ مشرف جانتا تھا کہ نواز شریف اسے ہٹادے گا، وغیرہ وغیرہ۔ سوال یہ ہے کہ پاک فوج کے اقدامات اور منصوبوں کو افشا کرنا اندر کی بات باہر لانے کے زمرے میں آتی ہے یا نہیں۔ اب اگرچہ دیر ہوگئی ہے لیکن ہمارے ادارے نہیں مانیں گے۔ سیاستدانوں نے تو پہلی مرتبہ یہ حرکت کی ہے کہ فوج جو کررہی ہے براہ راست اس پر الزام لگارہے ہیں۔ ورنہ یہ کام صرف فوج کی طرف سے بالواسطہ ہوتا ہی رہتا تھا، کبھی کسی کا اسکینڈل کبھی کسی کا۔ اب بھی نہ رکے تو خاکم بہ دھن۔