معاشی ضروریات: کل اور آج

پچھلے کالم میں یہ بات واضح کی گئی تھی کہ معاشی جدوجہد یعنی کاروبار، تجارت اور ملازمت وغیرہ بذات خود کوئی غلط کام نہیں اور ہمارا دین نہ صرف اس کی اجازت دیتا ہے بلکہ ایمانداری کے ساتھ ان کاموں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور دیانتدارانہ تجارت کو کار ثواب قرار دیتا ہے لیکن اگر کوئی شخص ان سرگرمیوں میں منہمک ہو کر انہی کا ہو کر رہ جائے، دینی فرائض کو نظر انداز کردے، معاشرتی تعلقات کو بھول جائے، حلال اور حرام کی تمیز نہ کرے تو یہ اس کا مسئلہ ہے جس کا وہ آخرت میں جوابدہ ہوگا لیکن ان وجوہ کی بنا پر سرے سے معاشی جدوجہد ہی کو غلط قرار دینا مناسب نہیں۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں کم از کم بڑے شہروں کی حد تک معاشرتی تعلقات کی پاسداری، گرمجوشی اور ایثار میں کمی آئی ہے، بیمار کی عیادت کرنا، کسی کی خوشی میں شریک ہونا، محض خیریت معلوم کرنے کے لیے جانا، دوستوں، رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے حالات سے باخبر رہنا، خرم جاہ مراد صاحب کے الفاظ میں باہمی تعلقات کو بڑھانا یا قائم رکھنا بتدریج کم ہوتا جارہا ہے۔ میرے خیال میں اس کی وجوہات میں ہماری بڑھتی ہوئی معاشی ضروریات، ٹیکنالوجی کا استعمال، شہروں کی بگڑتی ہوئی مخصوص صورت حال، امن وامان کا مسئلہ اور معاشی سرگرمیاں ہیں۔
جہاں تک ہماری ضروریات کا تعلق ہے گزشتہ پچاس سال کے مقابلے میں زمین آسمان کا فرق آگیا ہے، مثلاً تعلیم کے معاملے ہی کو لیں ساٹھ اور ستر کی دہائی میں بچے سرکاری اسکول میں پہلی جماعت میں داخلہ لیتے تھے، دس سال میں میٹرک کیا، اس کے بعد کچھ مزید تعلیم حاصل کی اور نوکری شروع کردی، اخراجات بھی نہ ہونے کے برابر تھے، آج کل بچے کی پیدائش کے بعد والدین اس کے لیے اسکول تلاش کرنا شروع کردیتے ہیں اور جیسے ہی بچہ ڈھائی سال کا ہوا پری پرائمری، مونٹیسوری، نرسری اور کے جی کے نام انگلش میڈیم میں داخل کرادیتے ہیں، پھر اس چھوٹے معصوم بچے کے اسکول جانے اور لانے کے انتظام و اخراجات الگ۔ ڈھائی سال کے بعد کلاس ون کا نمبر آتا ہے پھر دوبارہ اسکول کے انتخاب کا عمل شروع ہوتا ہے، اس معاملے میں آج کل مسابقت والی سوچ پیدا ہوگئی ہے کہ اگر تمہارا بچہ سٹی اسکول میں تو میرا بچہ بیکن ہاؤس میں۔ اسکول کی تعلیم ایک اسٹیٹس سمبل بن گیا ہے اور ان اسکولوں کے اخراجات ہوش اُڑا دینے والے ہیں۔ پاکستان کا ایک شہری گھرانہ اپنی آمدنی کا جتنا بڑا حصہ بچوں کی تعلیم پر خرچ کرتا ہے اس کی مثال دنیا کے کسی دوسرے ملک میں نہیں ملتی۔
اب اس تصویر کا دوسرا رُخ دیکھیں۔ پہلے کسی نے انجینئرنگ کرلی یا ایم بی بی ایس کرلیا تو اس کی تعلیم مکمل ہوگئی مگر آج کے دور میں ایسا نہیں، انجینئرنگ یا میڈیکل کی تعلیم کے بعد نوجوان ملازمت میں آرہا ہے اور شام میں ایم بی اے کررہا ہے۔ آپ نے بی کام کیا ہے، ایم اے کیا ہے، ایم ایس سی کیا ہے، ایل ایل بی کیا، لیکن تعلیم مکمل نہیں، اسی لیے آج کے دور کے زیادہ تر نوجوان ملازمت کے ساتھ ساتھ شام میں کسی تعلیمی ادارے میں مزید تعلیم حاصل کررہے ہوتے ہیں، اب جو شخص صبح گھر سے نکل کر رات دس بجے روزانہ گھر لوٹ رہا ہے اس کے لیے کہاں کی رشتہ داری اور کہاں کے معاشرتی تعلقات۔
اب آپ گھر کے سازوسامان کو دیکھیں چاہے بجلی کے آلات ہوں، موبائل فون یا کمپیوٹر سے متعلق اشیا ہر معاملے میں کچھ عرصے میں اس کا نیا ماڈل (Version) آجاتا ہے اور گھر کے افراد کا مطالبہ ہوتا ہے کہ نیا ماڈل لیا جائے۔ جن کے گھر میں کمپیوٹر (P.C) تھا وہ لیپ ٹاپ لینا چاہتے ہیں، جہاں ٹی وی تھا وہ ایل سی ڈی (LCD) لگوانا چاہتے ہیں، جن کے پاس کی پیڈ (Keypad) والا فیچر موبائل فون ہے وہ اسے اسمارٹ فون میں بدلنا چاہتے ہیں اور لیپ ٹاپ اور اسمارٹ فون کے بعد جو سماجی رابطے کی ویب سائٹس یعنی فیس بک، واٹس ایپ، ایمو IMO وغیرہ کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے تو اس کے بعد تمام رابطے، تمام تعلقات اور تمام رشتہ داریاں انہی سوشل نیٹ ورک پر نبھائی جارہی ہیں۔ مبارک دینی ہو، عیادت کرنا ہو، تعزیت کرنی ہو یا خیریت معلوم کرنا ہو ان سب کے لیے فیس بک اور واٹس ایپ حاضر ہیں۔ پیغام بھیج دیں، تصاویر بھیج دیں یا ویڈیو اور میرے خیال میں اس ٹیکنالوجی سے پیغام رسانی اور رابطے کا عمل آسان اور تیز ہوگیا ہے یعنی ان میں اگر کچھ برائیاں ہیں تو اچھائیاں بھی ہیں۔
شہری گھرانوں کی ایک اور مصروفیت جو چالیس، پچاس سال پہلے نہ ہونے کے برابر تھی اور اب تقریباً ہر گھر میں گھس آئی ہے وہ باہر کھانا کھانے کا چلن ہے۔ کراچی ہو یا لاہور، اسلام آباد یا ملتان ہر جگہ بڑے بڑے ریسٹورنٹ، فوڈ چین یا فوڈ اسٹریٹ بن گئی ہیں، جہاں مرد حضرات یا خاندان کے تمام خواتین اور مرد بوڑھے اور بچے کھانا کھانے جاتے ہیں۔ بعض ریسٹورنٹس کا حال یہ ہے کہ وہاں ویٹنگ روم بنے ہیں کہ پہلے پندرہ بیس منٹ یا آدھا گھنٹہ انتظار کریں پھر اس کے بعد آپ کو جگہ ملے گی، عام طور پر یہ ریسٹورنٹس گھر سے بہت دور ہوتے ہیں اس طرح ایک وقت کا کھانا کھانے کے لیے تین چار گھنٹے اور کئی ہزار روپے چاہئیں۔
سماجی رابطے اور معاشرتی تعلقات میں کمی کی ایک وجہ بڑے شہروں میں شہریاتی عمل (Urbanigation) کا ہونا ہے۔ یعنی ہر بڑے شہر میں دیہی علاقوں سے آبادی کا انتقال ہورہا ہے۔ یہ معاملہ دنیا کے تمام شہروں میں ہے، شہروں کی آبادی میں تیزی سے اضافے کی وجہ سے شہروں کی جغرافیائی حدود بڑھتی جارہی ہیں، آپ کراچی اور لاہور کی آج کی حدود دیکھ لیں اور پچاس سال پہلے کی دیکھ لیں۔ چناں چہ فاصلے بڑھ گئے ہیں اور ٹریفک بڑھنے سے ٹریفک جام کے مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ چناں چہ آج کے دور میں کہیں آنا جانا بہت مشکل ہوگیا ہے اس کے علاوہ سیکورٹی کے خدشات اور امن وامان کے مسائل کے باعث لوگ آنے جانے سے کتراتے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دین اسلام صلہ رحمی پر بہت زور دیتا ہے، قرآن و حدیث میں رشتہ داروں، پڑوسیوں اور دوست احباب کے حقوق ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے اور معاشرتی حقوق ادا کرکے ہم اپنی دنیا اور آخرت کو بہتر بناسکتے ہیں۔