’بابو ہو جانا فٹ پاتھ پر!‘

548

لو صاحبو، ختم ہوتے ہوتے اب تانگے کی سواری تقریباً ہر شہر سے ختم ہوگئی۔ حتیٰ کہ تانگوں کے شہر لاہور سے بھی۔ بہت بُرا ہوا کہ اب وہ ’خیر خواہ‘ تانگے والے بھی اپنے اپنے تانگوں کے ساتھ ہی ’ٹخ ٹخ‘ کرتے رُخصت ہوگئے جو ہر ایک کا بھلا چاہتے تھے۔
’تانگہ لاہور دا ہووے کہ بھاویں جھنگ دا تانگے والا خیر منگدا‘
اب ۔۔۔ ’او تہاڈی خیر ہووے‘ ۔۔۔ کی دُعا مانگتی ہوئی مزے مزے کی آوازیں کہاں سنائی دیں گی۔ وہ آوازیں جن کی پُرتاثیر تانوں سے ہمارے شہروں کی فضائیں ہمیں ایک اساطیری (Historical) ماحول میں لے جایا کرتی تھیں۔ اب ۔۔۔ ’کَلّی سواری، بھاٹی، لواری‘ ۔۔۔ کی صدائیں سننے کو سماعتیں ترستی رہیں گی۔ اب تو آپ کو ’چنگ چی‘ کی پھٹ پھٹ اور اُس کے چنگھاڑتے بریکوں ہی کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ ’ٹخ ٹخ‘ کی وہ آواز رفتہ رفتہ رفتگاں میں شامل ہو کر معدوم ہوگئی ہے۔ اِس آواز میں ایسی موسیقیت تھی کہ موسیقار سہیل رانا نے اسے اپنے مشہور گانے ۔۔۔ ’بندر روڈ سے کیماڑی، میری چلی رے گھوڑا گاڑی‘ ۔۔۔ کی دُھن بناڈالا تھا۔ اس کا ٹیپ کا مصرع یہی تھا۔ مگر اس میں ایک ٹکڑے کا اضافہ بھی تھا کہ ۔۔۔ ’بابو ہو جانا فٹ پاتھ پر‘ ۔۔۔ یہی جملہ لاہور میں کسی اور طرح سے کہا جاتا تھا۔
کب کہا جاتا تھا؟ اُن دنوں کہا جاتا تھا جب لاہور کی فضائیں یہاں کے تاریخی تانگوں کی ٹخ ٹخ اور تانگہ بانوں کی سریلی تانوں سے آباد تھیں۔ صرف تانوں ہی سے آباد نہ تھیں بلکہ ان ’گھوڑے گاڑیوں‘ کے جزوِ اوّل کے ’عطایا‘ میں سے ایک عطیۂ خاص کے رنگ و بو سے بھی ان سڑکوں کی فضائیں ’معمور‘ رہا کرتی تھیں۔ گھنٹوں بعد بھی محض ’رنگ و بو‘ کی مدد سے بتایا جا سکتا تھا کہ:
’ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے‘
تانگے بند کردینے کی ایک وجہ تو یہی بنی ہوگی کہ ’برگر بابوؤں‘ کو یہ تاریخی رنگ و بو خوش نہ آئے۔ دوسری وجہ یہ بنی ہوگی کہ یہ سواری نئے زمانے کی تیز رفتاری اور برق رفتار ’میٹرو‘ کی سواری کا ساتھ دینے سے قاصر رہی۔ یہ سواری خوش خرام و آہستہ خرام بلکہ ۔۔۔ بہت دیر تک اپنے اڈّے سے ۔۔۔ ’مخرام‘ ۔۔۔ (یعنی مت چلو) قسم کی سواری تھی۔ اگر کبھی کوئی اجنبی مسافر لاہور آتا اور اس کا لاہور کی سڑکوں کو ناپنے کا موڈ بن جاتا تو سڑک پر چہل قدمی کرتے ہوئے کبھی کبھی اُس کی پشت پر یکایک ایک ایسا ’غیبی گھونسا‘ پڑتا کہ وہ بلبلا کر رہ جاتا۔ گھونسا پڑجانے کے بعد (حکومت کے بعد از سانحہ حفاظتی اقدامات کی طرح) ایک لہکتی ہوئی آواز سنائی دیتی ۔۔۔ ’بچ موڑ توں‘ ۔۔۔ تب پتا چلتا کہ یہ گھونسا ’بالغیب‘ نہیں تھا۔ ’بالشہادہ‘ تھا اور کسی تانگے کی گزران کی شہادت دینے کے لیے، اُس تانگے سے بھی پہلے آپہنچنے والے ’بم‘ کی طرف سے ایک تنبیہ تھی۔ اسی ’بچ موڑتوں‘ کا سہل ترجمہ سہیل رانا نے اپنے گانے میں یوں کیا تھا ۔۔۔ ’بابو ہوجانا فٹ پاتھ پر!‘
’بھاٹی، لوہاری‘ تک محدود رہ جانے والے آخری زمانے سے قبل کی تاریخ پر نظر ڈالیے تو کبھی یہ سواری ’شاہی سواری‘ ہوا کرتی تھی۔ اس کی اعلی قسم کو ’بگھی‘ کہا جاتا ہے۔ اب سنا ہے کہ محض تفریح لینے کے لیے لاہور کی مال روڈ پر سجی سجائی بگھیاں کبھی کبھی چلائی جاتی ہیں۔ مگر وہ تانگے والی بات اُن میں کہاں؟ کبھی کبھی یہ بگھی ہمارے ’شاہانِ ذی جاہ و والا تبار‘ اپنی چمچماتی شیورلیٹ کار سے اُتر کر بھی استعمال کرلیا کرتے ہیں۔ ’یومِ پاکستان‘ کے موقع پر ہونے والی پریڈ کی سلامی لینے کے لیے صدرِ پاکستان اسی پر سوار ہوکر ’ٹخ ٹخ‘ کرتے ہوئے تشریف لاتے ہیں۔ گویا شان وشوکت کے اظہار لیے بھی بگھی ہی کام آتی ہے۔ اب مسلمان حکمرانوں کی وہ ’شان‘ کہاں کہ ’خادم‘ اونٹ پر سوار ہے اور ’مخدوم‘ کے ہاتھ میں اونٹ کی مہار ہے۔
جب تانگہ چلتا تھا تو ہماری سڑکوں ہی پر نہیں، ہماری سیاست میں بھی خوب چلتا تھا۔ بعض سیاسی جماعتیں ’تانگہ پارٹیاں‘ کہلاتی تھیں۔ اپنے شیخ رشید احمد صاحب کا یہ محبوب فقرہ تھا۔ مگر جب خود انھیں ایسی ہی ایک پارٹی بنانے کی حاجت پیش آئی تو تانگہ عنقا ہو چکا تھا۔ تانگے کا گھوڑا تو کیا اُنہیں سواری کے لیے خچر بھی نصیب نہ تھا۔ اب واللہ اعلم اُن کی پارٹی گھوڑا پارٹی کہی جائے گی یا خچر پارٹی؟ مگر سواری تو وہ عمران خان کی پارٹی پر گانٹھ رہے ہیں۔ ہاں تو ہم عرض کر رہے تھے کہ جب تانگہ چلتا تھا تو سیاست میں اس کا حوالہ بھی خوب چلتا تھا۔ 1985ء میں جب ضیا صاحب کے مارشل لا کو ’جمہوریت‘ کی طلب ہوئی تو اُنہوں نے مسلم لیگ کے پیر صاحب پگارا شریف (شاہ مردان شاہ مرحوم) سے اُن کا ایک بندۂ خاص (محمد خان جونیجو) اُدھار مانگا۔ پیر صاحب نے اُس وقت ایک دلچسپ بیان دیا۔ فرمایا:
’’مسلم لیگ اور فوج ایک تانگے کے دو پہیے ہیں۔ فوج سے رُخصتی لینے کے بعد لوگ سیدھے مسلم لیگ میں چلے آتے ہیں اور اب تو مسلم لیگ کے نوجوان بھی اُٹھ کر فوج میں بھرتی ہونے چلے جاتے ہیں، اس اُمید پر کہ شاید کبھی وہ بھی سی ایم ایل اے بن جائیں‘‘۔
پیر صاحب مرحوم نے اپنے دلچسپ انداز میں اُس موقع پر قوم کو یہ بھی یاد دلایا کہ:
’’یہ وہی لنگڑی لولی مسلم لیگ ہے، جسے ’مردہ گھوڑا‘ قرار دیا جاتا تھا۔ اب یہی مردہ گھوڑا قوم کے مستقبل میں فیصلہ کن کردار ادا کر رہا ہے‘‘۔
یوں اُس ’غیرسیاسی‘ اور ’غیر جماعتی‘ دور میں ’مسلم لیگ کا مردہ گھوڑا‘ مارشل لا کے ایک ہی ’’قم باذن اللہ‘‘ سے جی اُٹھا۔ مگر اس گھوڑے کو جمہوریت کے تانگے کے آگے جوتنے کی بجائے مارشل لا کے تانگے کے پیچھے جوڑ دیا گیا۔ پھر تو یہ سلسلہ چل ہی پڑا۔ مسلم لیگ اور مارشل لا میں ’تانگے اور گھوڑے‘ کا ایسا اٹوٹ رشتہ قائم ہوا کہ پرویز مشرف کے مارشل لا میں بھی مسلم لیگ (ق) کا گھوڑا مارشل لا کے تانگے کے پیچھے جوتا گیا۔ الغرض ہماری سیاست میں پھر یوں ہی ہوتا رہا۔ کبھی تانگے کے پیچھے گھوڑا جوت دیا گیا اور کبھی گھوڑے کے آگے تانگہ باندھ دیا گیا۔ یوں سمجھیے کہ اب اس ملک میں ہر قسم کی مسلم لیگ کی حیثیت (گاہ زندہ، گاہ مردہ، مگر) گھوڑے ہی کی سی ہے:
’جو بھی گزرا ہے اُس نے جوتا ہے‘
طالع آزما خواہ فوجی آئے ہوں یا غیر فوجی۔ اُنہوں نے کسی نہ کسی مسلم لیگ کو پکڑا اور اُسے ایڑ لگائی کہ ۔۔۔ چل میرے گھوڑے ٹخ ٹخ ٹخ!
اب تو خیر اصلی تانگے کی سواری بادِ بہاری بھی بہار کے بادلوں کی طرح ہمارے شہروں کی شفاف سڑکوں پر سے گزر کر کہیں اور ہی چلی گئی ہے۔ مگر تانگہ جب تک رہا، یا جب تک رہنے دیا گیا، ہماری سڑکو ں پر خوب دوڑا۔ یہ کہتے ہوئے کہ ۔۔۔ ’بابو ہوجانا فٹ پاتھ پر‘ ۔۔۔ اور ہماری قوم کے ’بابو‘ بھی ایسے باوفا نکلے کہ ابھی تک فٹ پاتھوں پر کھڑے ہیں، بلکہ بعض تو عمر بھر کے لیے فٹ پاتھ پر ہوگئے ہیں۔ ہمارے سیاسی سفر کا یہی حال ہے۔ اس سفرکا مسافر اچھا خاصا چلتا چلا جا رہا ہوتا ہے کہ چلتے چلتے اچانک اُس کی پیٹھ پر ’’دھائیں‘‘ سے ایک لٹھ پڑتا ہے، اس آواز کے ساتھ کہ ۔۔۔ ’بچ موڑ توں‘ ۔۔۔ پیچھے مُڑ کر دیکھیے تو کوئی لارڈ ماؤنٹ بیٹن جیسا کوچوان تانگے پر چڑھا چلا آرہا ہوتا ہے اور گار ہا ہوتا ہے کہ ۔۔۔ ’بابو ہو جانا فٹ پاتھ پر‘ ۔۔۔