بے شناخت علاقے اور فورتھ جنریشن وار

410

حکومت نے بدلتے وقت اور حالات کے تقاضوں کے پیش نظر پاکستان کے تین اہم علاقوں فاٹا، گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کی دھندلی حیثیت اور شناخت کو واضح کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ علاقے ستر سال سے ایڈہاک ازم کے روایتی اصول اور آئین کے تحت ہی چلائے جا رہے تھے۔ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کی حد تو غیر یقینی اور تذبذب سمجھ میں آنے والی بات تھی کہ یہ علاقے مسئلہ کشمیر کے ایک بڑے قضیے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں مگر فاٹا کے عوام کا ستر سال سے معلق رہنا ایک المیہ اور تساہل ہی تھا۔ پہلے مرحلے کے طور پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے یکے بعد دیگرے اکتیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے فاٹا کے خیبر پختون خوا میں انضمام کی منظور دیدی اور یوں ایک سو اٹھارہ برس بعد علاقے سے ایف سی آر قوانین ختم اور آئین پاکستان کا نفاذ ہو گیا۔ اسمبلی نے آئین پاکستان سے فاٹا اور پاٹا کے الفاظ حذف کرنے کی منظوری بھی دیدی۔ جس کے ساتھ قبائلی ایجنسیاں اور ایف آر کے علاقے خیبر پختون خوا میں شامل ہوگئے۔ اپوزیشن کی دو اہم جماعتوں پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی نے اس معاملے پر حکومت کا ساتھ دیا جبکہ مولانا فضل الرحمان اور محمود اچکزئی نے اس تاریخی عمل سے دور ہنا ہی ضروری سمجھا۔ اس فیصلے کے بعد قبائلی علاقے میں وزیر اعلیٰ کے اختیارات نافذ العمل ہوں گے۔
فاٹا اصلاحات کمیٹی کے سربراہ سرتاج عزیز کے مطابق فاٹا کو ڈیڑھ سال قبل ہی کے پی کے میں ضم ہونا تھا مگر مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی کی مخالفت کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا۔ فاٹا کا انضمام ایک مشکل مگر تاریخی فیصلہ ہے۔ فاٹا کے عوام آزادی حاصل کرنے کے باوجود انگریز کے بنائے ہوئے قوانین اور نظام کے تحت زندگی گزار رہے تھے۔ جس پر ان علاقوں میں شدید غصہ بھی پایا جاتا تھا۔ تمام تر شکایتوں کے باوجود قبائلی عوام نے ریاست اور ملک کے ساتھ اپنی وابستگی میں کوئی دراڑ نہیں آنے دی۔ یہ لوگ پاکستان کی سرحدوں کے قدرتی اور بلاتنخواہ محافظ بن کر کھڑے رہے۔ ان علاقوں کی مہمان نوازی کی روش بعد میں گلے بھی پڑ گئی اور یہ علاقے خوفناک اور رنگ برنگی عسکریت کی زد میں آگئے۔ جسے جڑ سے اکھاڑنے کے لیے پاک فوج کو کئی آپریشن کرنا پڑے۔ ان آپریشنوں کی وجہ سے قبائلی علاقوں کے عوام کو اپنے ہی وطن میں مہاجر بننا پڑا۔ انہوں نے بے پناہ قربانیاں دے کر ریاست کا ساتھ دیا۔ ان کے کاروبار اور کھیت اور کھلیان تباہ ہوگئے۔ سوشل اسٹرکچر برباد ہوا۔ اب حکومت نے قبائلی علاقوں میں گومگوں کی صورت حال ختم کرنے اور ان علاقوں کو مرکزی دھارے میں لانے کا فیصلہ کیا۔ جس سے قبائلی عوام کا احساس محرومی کم ہوگا اور وہ ملک کے دوسرے حصوں کی طرح ترقی کا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
ہفتہ بھر قبل وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان نے شرکت کرکے کئی اہم امور پر اتفاق کیا تھا۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ملک کی جیو اسٹرٹیجک صورت حال کا بغور جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ کئی حساس اور اہم معاملات پر بھی فیصلے کیے گئے تھے۔ جن میں فاٹا، آزادکشمیر اور گلگت بلتستان شامل ہیں۔ ان میں فاٹا کو کے پی کے میں ضم کرنے اور آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کی کونسلوں کو برقرار رکھتے ہوئے اختیارات بڑھانے کا فیصلہ بھی شامل ہے۔ یہ تینوں بہت اہمیت کے حامل فیصلے ہیں۔
فاٹا کے عوام اپنی شناخت مانگتے رہے ہیں۔ وہ اپنے لیے بدلتے وقت اورجدید تقاضوں سے ہم آہنگ قوانین کا مطالبہ کرتے رہے تھے۔ اسی طرح آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام عرصہ دراز سے اختیارات میں اضافے کا مطالبہ کرتے چلے آرہے ہیں اور اس کے لیے ان علاقوں میں آئینی طور پر خاصا کام بھی ہو چکا ہے۔ آزادکشمیر کے آئین میں ترامیم کا مسودہ بھی تیار ہو کر وفاقی اداروں کی درازوں میں کہیں بند پڑا ہے۔ گلگت بلتستان کے حوالے سے سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک کمیٹی کی رپورٹ بھی تیار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم ایک حساس خطے میں ہیں جہاں چہار جانب سے دشمن رنگ اور ڈھنگ بدل کر حملہ آور ہے۔ فورتھ جنریشن وار دشمن کا نہایت آسان ہتھیار ہے اور اس کے ذریعے مشرق وسطیٰ کے کئی ملکوں کا سول اسٹرکچر برباد کرکے ان کا حلیہ بگاڑا جا چکا ہے۔ حقوق اور بے چینی کے نام پرکئی ملکوں میں عوام میں احتجاج کو فروغ دے کر مضبوط فوجوں کو تتر بتر کیا جا چکا ہے۔ بے چینی کے عناصر اور اسباب ہر ملک اور معاشرے میں موجود ہوتے ہیں۔ انسانی معاشرے ناانصافیوں سے کبھی خالی اور آزاد بھی نہیں رہے۔ ہر جگہ بے چینی کی نوعیت اور سطح اپنی اپنی ہوتی ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ عرب بہار کے نام پر تیونس میں پھل کی ریڑھی سے شروع ہونے والے احتجاج کو سوشل میڈیا کے ذریعے اس قدر بگاڑ دیا گیا کہ معاملہ حکومت کے خاتمے اور ہزاروں افراد کی ہلاکت تک پہنچا۔ احتجاج اور بے چینی ہر جگہ موجود ہوتی ہے جب کسی معاشرے میں جذبات کا پریشر ککر پھٹ جاتا ہے تو سوشل میڈیا کو استعمال کرکے اس احتجاج اور بے چینی کو من پسند رخ دیا جاتا ہے۔ یہی فورتھ جنریشن وار ہے۔ جس کے ذریعے مشرق وسطیٰ کے طاقتور حکمرانوں اور ملکوں کو ڈھیر کیا جا چکا ہے اور اب انارکی کی لہروں پر بہتے چلے جانے والے یہ معاشرے کسی مرکزیت کو ترس رہے ہیں۔ اس تناظر میں آزادکشمیر، گلگت بلتستان اور فاٹا تینوں فورتھ جنریشن والوں کے رے ڈار پر ہیں۔ یہ منصوبہ ساز پاکستان میں مختلف ناانصافیوں کو اس انداز سے پیش کررہے ہیں کہ ایک عام نوجوان مستقبل سے مایوس ہو کر اورکشتیاں جلا کر میدان میں نکل آئے۔ پہلے خالی ہاتھ ہی سہی مگر بعد میں ان ہاتھوں میں بندوق آنا لازمی ہوتا ہے۔ اس لیے سیاسی طاقت اور فیصلہ سازی کے مراکز سے دور فاٹا گلگت بلتستان کو مزید اختیارات دینے پر سیاسی اور سلامتی کے اداروں کا اتفاق ایک اچھی بات ہے۔ اب ان علاقوں کے حوالے سے ہونے والے فیصلوں پر عمل درآمد کرنے میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ احساس محرومی اعتماد کی خلیج کو جنم دیتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ خلیج بڑھتی چلی جاتی ہے اور اس خلا اور خلیج کو پُر کرنے کے لیے فتنہ پرور بیرونی عناصر تیار کھڑے ہوتے ہیں۔ پاکستان تو اس طرح کے آمادہ فساد اور درپ�ۂ آزارہمسایوں اور مہربانوں میں آج بھی خود کفیل ہے۔