ایک اور تاریخی عدالتی فیصلہ

742

لاہور کی سینٹرل عدالت کے جج محمد رفیق نے 3 سو روپے رشوت لینے کے الزام میں سترہ سال سے قید پی ٹی سی ایل کے لائن مین کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کردیا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ 17 برس میں لاکھوں روپے صرف کرکے بھی استغاثہ الزام ثابت نہ کرسکا اور جب فیصلہ ہوا تو پتا چلاکہ مال خانے میں جو مال مقدمہ کے طور پر تین سو روپے رکھے تھے وہ بھی غائب ہوگئے ہیں۔ عدالت نے بڑا کارنامہ یہ کیا کہ ملزم کو بری کردیا۔ اس کے خلاف مقدمہ کرنے والے مدعی کو کیا سزادی۔ مال خانے سے مال مقدمہ چوری کرنے والوں کو کیا سزادی؟؟۔ ان کے خلاف کچھ نہیں ہوا اور نہ ہوگا۔ کیونکہ یہ روایت نہیں ہے۔ ہمارے غریبوں کے لیے 17 سال جیل میں رہنا کوئی بات نہیں ہے۔ وہ غریب تو اپنے گھر میں چھت پانی اور کھانے سے بھی محروم رہتا۔ لیکن یہ فیصلہ یا خبر پاکستان کے نظام عدالت اور انصاف پر ایک اور طمانچہ ہے۔ پاکستان کی عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کے مختلف ججز بڑے بڑے فیصلے اور ریمارکس دے رہے ہیں سب کو پکڑ لینے کے دعوے کررہے ہیں لیکن بڑوں کو تو بعد میں پکڑیں۔ ذرا پہلے اس 3 سو روپے کے اسکینڈل کو تو ٹھکانے لگائیں۔ مجرموں کو سزادیں انہیں بھی 17 برس جیل میں ڈالیں۔ کوئی پہلا معاملہ تو نہیں اس سے قبل ایک کیس میں تو ملزم کو موت کے بعد بے گناہ قرار دیا گیا۔ اگر ایسے ہی غریبوں کو عدالتوں میں دھکے کھلانے اور محض شک یا جعلی مقدمے پر لوگوں کو جیل بھیج دینا تو بڑا ظلم ہے۔ یہ تو معمولی صلاحیت کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ کون سا جرم حقیقتاً جرم ہے اگر تین سو روپے رشوت کا الزام تھا تو اس ملزم کو جیل بھیجنے والے مجسٹریٹ یا جج سے پوچھا جاسکتا تھا کہ اس نے کس بنیاد پر یہ فیصلہ دیا۔ لیکن کون پوچھے گا یہاں تو بھٹو کی پھانسی کو سیاسی قتل قرار دلوانے کی جد وجہد کرنے والے ہی کامیاب ہیں۔