ملک کون چلا رہا ہے؟

342

وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے بڑی معنی خیز بات کہہ دی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ آج کے حالات میں ملک چلانا ممکن نہیں عدلیہ ، نیب اور میڈیا کی وجہ سے پیدا کردہ حالات میں ملک کیسے ترقی کرے گا ۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ مستقبل کی حکومت کو بھی ان ہی مشکلات کا سامنا ہو گا ۔ ہمارے پاس کسی پر چڑھ دوڑنے کے لیے ہتھیار نہیں ۔ اپنا بیانیہ ہی دے سکتے ہیں ۔ انہوں نے جنرل اسد درانی اور اے ایس دولت کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس پر قومی سلامتی کمیٹی میں بحث ہونی چاہیے ۔ ملک کے حکمران کی بے بسی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ وہ کہہ رہا ہے کہ حکومت چلانا مشکل ہے ۔ وزیر اعظم کہہ رہا ہے کہ درانی کتاب پر قومی سلامتی کمیٹی میں بحث ہونی چاہیے ۔ لیکن قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہی نہ ہو سکا جس میں میاں نواز شریف کے متنازع بیان کا جائزہ لینا تھا ۔اگر وزیرا عظم اس کمیٹی میں کتاب کو بھی زیر بحث لانا چاہتے تو لا سکتے تھے ۔ لیکن وزیر اعظم کے تازہ بیان سے لگ رہا ہے کہ کوئی اور بھی ہے جو یہ معاملات اسمبلی اور کمیٹی میں زیر بحث نہیں آنے دینا چاہتا ۔ اب تو کتاب پر جی ایچ کیو میں بحث ہوگئی ہے ۔ وزیر اعظم کی خواہش اپنی جگہ جو کچھ کرنا ہے جی ایچ کیو کوکرنا ہے ۔ وزیر اعظم نے حالات خراب کرنے کی ذمے داری میں سے اس عنصر کا نام گول کر دیا ہے جس کی طرف ان کے لیڈر میاں نواز شریف بار بار اشارہ کررہے تھے بلکہ کھل کر فوج کا نام لے رہے تھے ۔ اب وزیر اعظم نے عدلیہ ، نیب اور میڈیا کا نام لیا ہے ۔ میڈیا کا نام تو درست لیا ہے لیکن اب ملک چلانا نا ممکن ہونے کا سبب یہی ہے کہ جن کے ذمے ملک چلانا ہے وہ ملک چلا نہیں سکتے اور جو سب کو چلا رہے ہیں وہ میڈیا کو بھی چلا رہے ہیں ۔ نام کبھی ان کا نہیں آتا۔۔۔ لیکن کنٹرول سارا وہیں سے ہوتا ہے ۔ ایک خیال تو یہ بھی ہے کہ عدلیہ بھی اسی مرکز سے کنٹرول ہو رہی ہے جہاں سے میڈیا ، نیب وغیرہ کی ڈوریاں ہلائی جا رہی ہیں بہر حال اب تو وزیر اعظم نے اعتراف کرلیا ہے کہ ملک چلانا ممکن نہیں ۔ لیکن اس سے ایک سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیا وجہ ہے کہ وزیر اعظم ان کی پارٹی اور ان کے لیڈر حکومت بھی لینا چاہتے ہیں ،اگلی حکومت بھی ہماری ہو گی کے دعوے کرتے ہیں ترقی کے اعلانات کرتے ہیں۔ ایک روز قبل تک وزیر اعظم یہی کہہ رہے تھے کہ اگلی حکومت بھی ہماری ہو گی تو اب ایک انٹر ویو میں ایسا کیا تبدیل ہو گیا ہے کہ حکومت چلانا ہی مشکل ہے گویا مسلم لیگ اب حکومت میں نہیں آ رہی کیونکہ اس کے نزدیک حکومت چلانا اب ممکن نہیں رہا ۔ ہمارا وزیر اعظم سے یہ بھی سوال ہے کہ وہ کون سے حالات تھے جب حکومت چلانا ممکن تھا اور ہمارے حکمرانوں نے ملک چلا کر دکھایا ہو اور عوام خوب خوشحال ،مطمئن پر سکون تھے ۔ پاکستانی قوم کو تو ایسے حکمران ملے ہیں کہ لوگ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ یہ ملک رہنے کے قابل نہیں رہا ۔ اس کا ذمے دار کون ہے ۔ صرف عدلیہ ، نیب اور میڈیا ۔ کیا حکومت صرف وی آئی پی مزے لوٹنے کا نام ہے ۔ ذاتی دوروں کے لیے قومی فضائی کمپنی کے طیارے لے جانے اور مراعات سمیٹنے کا نام حکومت چلانا ہے ۔ حکومت تو کانٹوں کی سیج ہے ۔ خادم قوم ہی حکمرانی کرتا ہے محض خادم اعلیٰ نام رکھنے سے حکمرانی نہیں ہوتی ۔ وزیر اعظم کو یہ بتانا چاہیے کہ اس ملک میں حکومت ، عدلیہ نیب اور فوج بھی کسی نہ کسی ضابطے کے پابند تو ضرور ہوتے ہوں گے ۔ ان ضابطوں کی پابندی کرانا تو حکومت ہی کا کام ہے ۔ وہ کیا حالات تھے کہ حکومت ان اداروں سے ضابطوں کی پابندی نہ کرا سکی ۔ کہیں خود حکمران ہی تو ضابطوں کے پابند نہیں رہنا چاہتے ۔ بات یہی درست ہے ۔ صرف سول نہیں عسکری حکمران اورفوج بحیثیت ادارہ بھی عدلیہ کے بڑے بڑے ججز ، نیب یا دیگر اداروں کے افسران اعلیٰ خود کو کسی ضابطے کا پابند نہیں سمجھتے ۔ اعلیٰ افسران اور فوج وغیرہ کو تو چھوڑیں ،راؤ انوار جیسے معمولی افسر کا یہ حال ہے کہ چار سو افراد کے قتل کے الزام کے باوجود وی آئی پی سہولتیں اس کو ملی ہوئی ہیں ۔ گرفتار کر کے بلکہ یہ لفظ درست نہیں راؤ انوار کو عدالت سے گھر تک پہنچانے والے پولیس اہلکار ابے تبے کے بجائے راؤ صاحب راؤ صاحب کر رہے تھے اور راؤ صاحب آج بھی ائر کنڈیشنر خراب ہونے کا رونا رو رہے ہیں ۔ اس ملک میں حکومت کون کررہا ہے ۔ اس کا جواب بھی اب وزیر اعظم کو دے دینا چاہیے ۔ آخری آخری دن یہ کام کر ڈالیں ویسے بھی ان کے بیان سے تو یہی لگ رہا ہے کہ وہ آئندہ حکومت میں آنے کے حوالے سے مایوس ہیں اور آگئے تو چلا نہیں سکیں گے۔