جسٹس ناصر الملک پر کٹھن ذمے داریاں

367

بالآخر حکومت اور اسمبلیاں ٹوٹنے کی پیشگوئیاں ختم ہوگئیں اور حکومت اور حزب اختلاف نے متفقہ طور پر سابق چیف جسٹس ناصر الملک کو نگران وزیراعظم مقرر کردیا۔ وزیراعظم قائد حزب اختلاف اور اسپیکر نے نام کا اعلان کیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ جسٹس ناصر الملک کے کردار پر کوئی اُنگلی نہیں اُٹھا سکتا۔ یہ تاریخ کا بہت اہم الیکشن ہوگا۔ یہ بات بالکل درست اور بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ آنے والا الیکشن بہت اہمیت کا حامل ہوگا۔ اس الیکشن کے حوالے سے حکمران پارٹی کو تحفظات ہیں کہ خلائی مخلوق دھاندلی کی تیاری کررہی ہے۔ ایک پارٹی نے پہلے ہی ابتدائی 100 دن کے منصوبے کا اعلان کردیا ہے، گویا اس کی کامیابی یقینی ہے اور وہ حکومت بنائے گی۔ دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی فی الحال گومگو کی کیفیت میں ہے۔ اس کا سارا انحصار سندھ پر ہے یا پنجاب میں میاں نواز شریف کی پارٹی کی ٹوٹ پھوٹ پر۔ لیکن پاکستان کی تاریخ میں دوسری مرتبہ سویلین حکومت اور اسمبلیاں مدت پوری کررہی ہیں۔ شاید حالیہ اسمبلی ملک کی وہ بدقسمت ترین اسمبلی ہے جس کے قیام کے بعد ہی سے سیاسی نجومی اس کے خاتمے کی پیشگوئیاں کرنے لگے تھے لیکن ان کی کوئی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ جس طرح ایک خلائی مخلوق کا ذکر کیا جارہا ہے کہ وہ انتخابات کو ہائی جیک کرتی ہے، نتائج پر اثر انداز ہوتی ہے، میڈیا کے ذریعے فضا بناتی ہے کہ فلاں فلاں پارٹی اور رہنما جیت رہا ہے یا ہار رہا ہے اسی طرح سیاسی قوتیں بھی انہی اعتبار سے کامیاب ہیں کہ اسمبلی کی مدت پوری کروالی۔ نگراں وزیراعظم جسٹس (ر) ناصر الملک کے بارے میں جیسا کہ کہا گیا ہے کہ ان کے کردار پر انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی تو پھر ان کو اس دعوے کو نبھانا ہوگا۔ دعویٰ تو خیر ان کو نامزد کرنے والوں نے کیا ہے لیکن نگراں وزیراعظم کا کام ہی صاف شفاف انتخابات کرانا ہوتا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے ان کی ساکھ بہت اچھی ہے لیکن انتخابات کرانا تین ماہ تک ملک چلانا اور امور مملکت پر گرفت رکھنا چیف جسٹس کے کاموں سے خاصا مختلف ہوتا ہے۔ توقع ہے کہ جسٹس ناصر الملک ایک مناسب اور باصلاحیت ٹیم منتخب کریں گے۔ ان کے لیے چیلنج ہی یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو بااختیار بنا کر اداروں کی مداخلت ختم کریں۔ ووٹر لسٹوں کی دستیابی یقینی بنوائیں۔ الیکشن کمیشن میں سیاسی مداخلت بند کرائیں۔ ایک بہت بڑا مسئلہ امن وامان کا ہے۔ انتخابات کا نام سن کر پاکستان میں لڑائی جھگڑے بلوے مارپیٹ کیمپوں کو آگ لگانا وغیرہ نظروں میں گھومنے لگتا ہے۔ اس تاثر کو بھی ایک مرتبہ ختم ہوجانا چاہیے جس طرح اسمبلیوں کی مدت کبھی پوری نہ ہونے کا خوف رفتہ رفتہ ختم ہورہا ہے۔ اسی طرح انتخابات کے نام کے ساتھ جڑے ہوئے بلووں اور ہنگاموں کا خوف بھی ختم کیا جانا ضروری ہے۔ در اصل ووٹ جیسی امانت کو اس کے اہل لوگوں تک پہنچانے کا ماحول فراہم کرنا ہی حکمرانوں کی ذمے داری ہے۔ 70 برس میں پاکستان میں پر امن انتخابات ممکن نہ ہوسکے۔ لوگ ووٹر لسٹوں میں نام ہی تلاش کرتے رہ جاتے ہیں۔ جس کو نام مل جائے اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ووٹ پہلے ہی ڈالا جاچکا۔ یہ ساری خرابیاں سندھ خصوصاً کراچی، حیدرآباد وغیرہ میں متحدہ قومی موومنٹ کی آمد کے بعد حد سے بڑھ گئی ہیں۔ اگر جسٹس ناصر الملک صاف شفاف انتخابات کرانا چاہتے ہیں تو انتخابی عملے کو بھی سیاسی مداخلت سے پاک کرنا ہوگا۔ مرکز میں تو خاصی بحث کے بعد یہ کام خوش اسلوبی سے ہوگیا کہ متفقہ نگراں وزیراعظم کے نام پر اتفاق ہوگیا لیکن سندھ اور کے پی کے میں غیر ضروری تاخیر سے ابہام پیدا ہورہاہے۔ ایک اور اہم خبر الیکشن کمیشن کے سیکرٹری کی ہے انھوں نے انکشاف کیا ہے کہ عالمی طاقتیں پاکستان کے عام انتخابات سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں۔ بڑے پیمانے پر سیکیورٹی خدشات الیکشن کمیشن کے لیے پریشانی کا سبب ہیں لیکن اس حوالے سے سیکرٹری بابر یعقوب فتح نے کچھ بتایا نہیں بلکہ بند کمرے میں بریفنگ دینے کا کہا ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان عالمی طاقتوں کی نگاہ میں کھٹکتا ہے اور وہ پاکستان میں ہر وقت مسائل پیدا کرنے کے در پے رہتی ہوں گی لیکن انتخابات کو جتنا مقامی طاقتیں سبوتاژ کرتی ہیں اتنا عالمی طاقتیں ہرگز نہیں کرسکتیں۔ سیکرٹری صاحب اپنی منطق اپنے پاس رکھیں اپنے مقامی چینلز اور انتخابات سبوتاژ کرنے والے مقامی اسباب کو دور کرنے پر توجہ دیں۔ عالمی طاقتوں کا معاملہ سیکورٹی ایجنسیوں پر چھوڑدیں۔ نگراں وزیراعظم کے لیے سیکرٹری صاحب کا دعویٰ بہت اہم ہے انہیں چارج سنبھالتے ہی سب سے پہلے اس کا نوٹس لینا ہوگا۔