سبیکا کی رخصتی اور ذہنی جانچ

333

معصوم سبیکا خوش تھی۔ بے انتہا خوش۔ اپنی تعلیم کے لیے امریکا میں اپنے انتخاب پر اپنے ویڈیو میسج میں کہتی ہے کہ جب میں نے پہلی دفعہ سنا تو مجھے یقین ہی نہیں آیا میرے والد نے ای میل چیک کرنے کے لیے کہا۔ اسے دیکھ کے میں نے اپنے کمرے میں چھلانگیں لگائیں مبارک بادیں وصول کیں اور پھر یوں اپنے خوابوں کو سمیٹنے کے لیے امریکا چلی گئی۔ اُسے کیا معلوم تھا کہ خود اُسے ہی خواب بنادیا جائے گا۔ سبیکا جو گھر آنے کے لیے ایک ایک دن گن رہی تھی اُسے یقین تھا کہ یہ عید وہ پاکستان میں اپنے گھر والوں کے ساتھ منائے گی۔ اُس کے لیے دونوں طرف تیاریاں تھیں لیکن واپسی سے کچھ ہی دن قبل ہمیشہ کے لیے ملک عدن روانہ کردیا جاتا ہے۔ دہشت گردی کے ایسے واقعات امریکا میں پہلی دفعہ نہیں ہوئے اس سے قبل بھی امریکا میں کوئی بھی بندوق بردار گھر سے نکل کر اسکولوں، بازاروں اور گرجا گھروں میں معصوموں کو نشانہ بناتا رہا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت سے مطالبہ ہوتا رہا ہے کہ ہتھیاروں کو جمع کرنے اور استعمال کرنے سے روکنے کے لیے قانون سازی کی جائے لیکن امریکی حکومت اس کے لیے تیار نہیں۔ اس طرح وہ خود اپنے شہریوں کے مقابلے میں دہشت گردوں کو تحفظ دینے والی ریاست کہلائی جانے کی حق دار نہیں؟؟۔
وہاں عدالتی سطح پر بھی ملزم کی پشت پناہی کی مثالیں موجود ہیں۔ ملزم کے والدین نے اپنے بیٹے کو بچانے کے لیے دو وکلا کی خدمات حاصل کرلی ہیں۔ جنہوں نے بڑی خوبی سے ملزم کو بچانے کے لیے کہہ دیا ہے کہ ’’حملے کے وقت وہ بظاہر حواس میں نہیں تھا‘‘۔ لیجیے معاملہ ہی ختم ہوا۔ نفسیاتی مریض پھر اپنے حواس میں نہیں۔ تو یہ سب اس نے جان بوجھ کر تھوڑی کیا ہے۔ یہ تو اُس کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت تھی جس میں وہ یہ سب کر بیٹھا۔ کیا جرمانہ اور کیا سزا؟ کچھ دنوں کی قید اور پھر واپس کھلی چھوٹ۔ پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی صاحب بھی ٹھنڈے ٹھنڈے انداز میں معاملے کو دبانے کے اشارے کر بیٹھے ہیں۔ کہتے ہیں انتہا پسندانہ رجحانات عالمی مسئلہ ہیں (یعنی سزا کی ضرورت نہیں) ان کی وجوہات اور ان کے تدارک کی ضرورت ہے۔ دنیا اب تک دہشت گردی اور انتہا پسندی کی تو تعریف طے کر نہیں پائی اُس کے رجحانات کا تدارک کیسے کرے گی۔ کشمیری اپنی آزادی کے لیے جو کوششیں کریں بھارت کے نزدیک انتہا پسندی، فلسطینی اپنی زمین کے حصول کے لیے پتھر بھی اُٹھالیں تو اسرائیل کے نزدیک دہشت گردی، افغان اپنے ملک سے غیر ملکی قابضین کو نکالنا چاہیں تو وہ انتہا پسند اور دہشت گرد قرار پائیں۔ پھر اس تناظر میں ملالہ پر حملے کو دیکھیے معاملے ایک جیسے لیکن دنیا کا رویہ انتہائی مختلف۔ ملالہ بھی تعلیم حاصل کرنے نکلی تھی، سبیکا بھی تعلیم کے لیے سمندر پار گئی تھی، ملالہ کو مبینہ طور پر حملے کا نشانہ بنایا گیا، سبیکا کو یقینی طور پر مہلک حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ پاکستان میں ملالہ پر حملہ ہوا تو آسمان سر پر اٹھالیا گیا لیکن امریکا میں معصوم سبیکا قتل ہوجاتی ہے۔ رپورٹ یہ دی جاتی ہے کہ گرفتار ملزم اپنے حواس میں نہیں تھا۔ امریکی حکمران صاف صاف کہتے ہیں کہ ہم گن کنٹرول کا قانون نہیں بناسکتے۔
پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے۔ لیکن ہر وقت کا مطالبہ ہے کہ ڈومور۔۔۔ پھر اگر کچھ کر رہے ہو تو یہ ہمارے حسب منشا نہیں ہے ہم جن کو کہتے ہیں ان ہی کے خلاف کارروائی کرو گے تو مانے گے۔ بھلا انہیں ایسے مطالبات کا حق ہے۔ کوئی پوچھے کہ امریکا میں کھلے عام فائرنگ کرکے معصوموں کی جان لی جائے، کوئی کبھی بھی اسکول میں فائرنگ کرکے معصوموں کو موت کے گھاٹ اُتارے، شہری خوفزدہ ہوں کہ امریکا اپنے بچوں کو محفوظ نہیں رکھ سکتا تو پھر کون رکھ سکتا ہے؟ پھر اپنے ہی شہریوں کے ہتھیاروں کے کنٹرول کرنے کے مطالبے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں بلکہ صدر ٹرمپ کہتے ہیں کہ اسکولوں میں ٹیچرز کو بھی کاؤنٹر کارروائی کے لیے ہتھیار رکھنے چاہئیں۔ پچھلے دنوں ٹیکساس کے چرچ میں ایک فرد نے 26 افراد کو قتل کردیا تھا جس کے فوراً بعد صدر ٹرمپ نے ملزم کو ذہنی مریض قرار دے دیا۔ بقول ان کے جسے اور بہت سے دوسرے مسائل کا بھی سامنا تھا۔ اور اس معاملے کو امریکا میں ہتھیاروں کو آسان دستیابی سے بے تعلق قرار دیا۔ طاقت ور امریکا جو دنیا کو اپنی طاقت کے بارے میں یاد دہانی کراتا رہتا ہے، جو ملکوں کی قسمت کے فیصلے کرنا اپنا حق سمجھتا ہے، جہاں کا میڈیا جس کو چاہے قابل گردن زنی قرار دے اور جس کو چاہے قابل نفرت اور قابل عبرت بنا ڈالے۔ جب چاہے جس سے چاہے معاہدے کرے اور جس سے چاہے توڑ دے۔ جس ملک کا چاہے انتخاب کرے اور کھنڈر بنا ڈالے۔ حسین شہروں کی ایک اینٹ سلامت نہ چھوڑی جائے جس کو چاہے ہیرو بنائے پھر جس کو چاہے زیرو بنائے۔ خود اسامہ بن لادن سے لے کر صدام اور قذافی تک۔ لیکن اپنے ہاں دہشت گردی کے واقعات روکنے کے لیے ہتھیاروں کی آسان دستیابی کا قانون بنانے پر آمادہ نہ ہو۔ دسیوں بیسویں معصوموں کو قتل کرنے والے نفسیاتی مریض قرار دے کر رحم کے مستحق ٹھیریں لیکن پاکستانی طالبہ اپنے دفاع کے لیے ہتھیار اُٹھائے تو جرم بے گناہی میں 80 سال کی قید میں ڈال دی جائے۔ حالاں کہ وہ خود گولیوں سے زخمی ہو اور اس کا گولی چلانا ثابت بھی نہ ہو۔ یہ ہے امریکی انصاف کی مثال۔ اور اس کا دوہرا معیار۔ امریکی ساری دنیا کی سن گن لیتا پھرتا ہے کون کہاں کیسے دہشت گردوں کو سپورٹ کررہا ہے لیکن اپنے ہی ملک میں معصوم شہریوں کی حفاظت میں ناکام رہتا ہے۔ تفتیش کاروں نے ملزم کے فیس بک پر اُسے ایک ٹی شرٹ پہنے دیکھا ہے جس پر ’’بورن توکل‘‘ درج تھا۔ ایسا دہشت گردی کا اعترافی جملہ اس سے پہلے یقیناًدیکھا گیا ہوگا فیس بک میں پڑھا گیا ہوگا لیکن کسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ اگر صدر اعتراف کرتے ہیں کہ نفسیاتی مریض ایسے کاموں میں ملوث ہوتے ہیں تو انہیں یہ قانون ہی بنالینا چاہیے کہ ہر ملازمت پر نفسیاتی امتحان لازمی ہوگا، ہر شہری پر طالب علم کو اس سے گزرنا ہوگا۔ فوج ہو یا حکومتی عہدہ اس سلسلے میں ہر ایک کو جانچا جائے گا بلکہ جتنا بڑا عہدہ ہو اتنی ہی جانچ بھی سخت ہوگی۔ جیسے سب سے زیادہ اور ضروری جانچ خود صدر ٹرمپ کی۔