کشن گنگا ڈیم، بڑی دیر کی مہرباں جاتے جاتے

397

کشن گنگا ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کا افتتاح اور ہماری دوڑیں ساتھ ساتھ شروع ہوئیں مگر ہماری کوششیں وقت گزرنے کے بعد یاد آنے والا مُکا بن کر رہ گئیں۔ اس مکُے کے برسنے کا بہتر مقام اب اپنا سر ہی ہے۔ یہ خبر قطعی غیرمتوقع نہیں کہ ورلڈ بینک نے کشن گنگا ڈیم کے حوالے سے پاکستان کے اعتراضات اور ثالثی کی درخواست پر عمل کرنے سے معذرت کر دی ہے۔ ورلڈ بینک کی طرف سے پاکستان کے اعتراضات اور شکایات کو ناکافی قرار دے کر مسترد کیا گیا ہے۔ پاکستان کے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کی قیادت میں ایک وفد نے بینک کی سی ای او کرسٹینا جور جیوا سے ملاقات کی تھی۔ پاکستان کے وفد نے انہیں بھارت کی طرف سے کشن گنگا ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔ جس کے جواب میں بتایا گیا کہ سندھ طاس معاہدہ کی حیثیت سے عالمی بینک کا کردار محدود ہے۔ اس جواب کے بعد پاکستان کے وفد کے ساتھ ہونے والی ملاقات بے نتیجہ ختم ہو گئی۔ حکومت پاکستان نے کنٹرول لائن کے قریب مقبوضہ کشمیر کے علاقے گریس میں بھارت کی طرف سے کشن گنگا ڈیم کی تعمیر پر اعتراض کیا تھا مگر بھارت نے اس اعتراض کو اہمیت دینے کے بجائے تعمیر کا سلسلہ جاری رکھا یہاں تک کہ ڈیم کی تعمیر مکمل ہوگئی اور نریندر مودی نے اس کا باضابطہ افتتاح بھی کردیا۔ مودی کے افتتاح کے بعد حکومت پاکستان کو عالمی بینک سے رجوع کرنے کا خیال آیا مگر وہاں سے ملنے والے جواب نے مسائل اور تنازعات کی شدت کو کچھ اور نمایاں اور گہرا کر دیا۔ کشن گنگا دریائے جہلم کا ایک معاون دریا ہے جو آزادکشمیر کی حدود میں داخل ہوکر دریائے نیلم کہلاتا ہے۔ دریائے جہلم کا معاون دریا ہونے کی وجہ سے کشن گنگا پر پاکستان کا حق ہے مگر بھارت نے 2005 میں اس دریا پر ڈیم تعمیر کرنا شروع کیا جس پر چھ ہزار کروڑ کی لاگت آچکی ہے۔ بجلی گھر کی تعمیر کے ساتھ ہی چوبیس کلومیٹر کی ایک سرنگ کھود کر کشن گنگا کے پانی کو بانڈی پورہ کے مقام پر وولر جھیل میں ڈالا جارہا ہے جہاں سے یہ پانی دوبار دریائے جہلم کا حصہ بنے گا۔ خود بھارتی ماہرین نے اس منصوبے کو سوائے اسٹرٹیجک اہمیت کے ہر لحاظ سے بے کار قرار دیا اور اسٹرٹیجک اہمیت یہ ہے کہ کنٹرول لائن کے قریب ڈیم اور بجلی گھر کے نام پر پچیس کلومیٹر طویل سرنگ دفاعی اور فوجی مقصد کے لیے بھی استعمال ہو سکتی ہے۔
اسٹرٹیجک اہمیت اور ماحولیات کی تباہی کے سوا یہ منصوبہ کسی کام کا نہیں۔ اس طرح کشن گنگا دریا کا رخ موڑنا پاکستان کو پانی کی کمی کا شکار کرنے کی بھارت کی روایتی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اس دریا پر پاکستان میں بھی وادی نیلم نوسہری ہائیڈرل پروجیکٹ کے نام سے پن بجلی کا منصوبہ مکمل ہو چکا ہے۔ بھارت کی طرف سے ڈیم بنانے کی وجہ سے دریا کا بہاؤ کم ہو جائے گا اور اس سے لامحالہ نیلم جہلم ہائیڈرل پاور پروجیکٹ بھی متاثر ہوگا اور زراعت بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گی۔ اس منصوبے کے اعلان کے ساتھ ہی پاکستان نے عالمی بینک کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا ہیگ کی عالمی عدالت نے اس منصوبے پر کام روکنے کا حکم بھی دیا تھا مگر تین سال بعد بھارت نے یہ موقف اختیار کرتے ہوئے کہ وہ ڈیم کی تعمیر میں سندھ طاس معاہدے کی روح کو پیش نظر رکھے گا یہ حکم امتناع ختم کرادیا تھا۔ اب عالمی بینک نے بھی پاکستان کے اعتراضات پر کوئی کارروائی کرنے سے معذرت کرکے حقیقت میں دونوں ملکوں کے درمیان پانی کے تنازعات کی شدت کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ آنے والے ماہ وسال پانی کے بحران کا پتا دے رہے ہیں اور بھارت انہی دنوں پر نظریں جما کر پاکستان کو پانی سے محروم کرنا چاہتا ہے۔ عالمی اداروں سے بھی فی الوقت کسی موثر کردار کی توقع عبث ہے۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ جب ڈیم کی تعمیر مکمل اور افتتاح ہوگیا تو پھر ورلڈ بینک جانے کا ٰاچھوتا خیال حکمرانوں کو کیوں سوجھا؟۔ کئی برس تک کیا ڈیم کی تعمیر کی تکمیل کا انتظار کیا جاتا رہا؟۔ ماحولیات کے ماہر ارشد عباسی ایک ٹی وی چینل پر بتا رہے تھے کہ وہ کشن گنگا ڈیم پر پاکستان کے مقدمے اور موقف کے حوالے سے تمام دستاویزات لے کر وزیر اعظم نوازشریف کے مشیر مصدق ملک کے پاس گئے اوران سے عالمی بینک میں یہ مقدمہ لڑنے کی درخواست کی۔ اس وقت ڈیم اور پاور پروجیکٹ زیر تعمیر تھا مگر اس درخواست پر کان نہیں دھرا گیا۔ یہاں تک کی تعمیر مکمل ہوگئی اور افتتاح بھی ہوگیا تو پاکستان کا وفد عالمی بینک تک پہنچا۔ اس مرحلے پر عالمی بینک ڈیم کو توڑنے کی قدرت تو نہیں رکھتا تھا۔ اس سے پہلے جماعت علی شاہ نامی واپڈا اہلکار مذاکرات کے نام پر نجانے کیا گل کھلاتے رہے کہ انہیں اب کینیڈا میں پناہ لینا پڑی ہے۔ وہ بھی اپنی طرح کے ’’حسین حقانی‘‘ تھے جو غیر ملک میں سفارت کاری کرنے جاتے اور اپنے ملک کے بجائے غیر ملک کے مفادات کا منترا پڑھتے واپس آتے۔
پاکستان کے قومی مفادات کے ساتھ ہونے والے مذاق اور اٹکھیلیوں کی تاریخ کا ایک باب کشن گنگا پاور پروجیکٹ کی تعمیر بھی ہے۔ اس صورت حال میں پاکستان کو بھارت کی آبی جارحیت کو ناکام بنانے اور آنے والے پانی کے بحران پر اپنی ساری توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ جس قدر جلد ہو نئے آبی ذخیروں کی تعمیر کا آغاز کرنے کے ساتھ ساتھ بارش کے پانی کو محفوظ بنانے اور شجر کاری کو فروغ دینا چاہیے تاکہ بھارت کی طرف سے آبی جارحیت کی حکمت عملی کو کسی نہ کسی حد تک ناکامی دے دوچار کیا جا سکے۔