عام انتخابات، پہلے گھر ٹھیک کریں

198

عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوگیا ہے۔ ن لیگ کی حکومت کے دن پورے ہوئے، نگران وزیر اعظم کا فیصلہ بھی ہوگیا لیکن اب تک گھر ٹھیک نہیں ہوسکا۔ صوبوں میں نگران وزیر اعلیٰ کا معاملہ لٹکا ہوا ہے۔ سب سے بڑے صوبے پنجاب کے بارے میں ایک دن پہلے یہ خبر تھی کہ وزیر اعلیٰ شہباز اور قائد حزب اختلاف محمود الرشید، جن کا تعلق تحریک انصاف سے ہے، دونوں ایک سابق سرکاری افسر ناصر کھوسہ کے نام پر متفق ہوگئے ہیں۔ یہ نام تحریک انصاف نے پیش کیا تھا لیکن اگلے ہی دن پی ٹی آئی پیچھے ہٹ گئی اور نام واپس لے لیا۔ حالاں کہ اس نام کا فیصلہ ہونے کے بعد خود محمود الرشید نے نہ صرف ناصر کھوسہ کی تعریف کی تھی بلکہ یہ بھی بتایا تھا کہ عمران خان نے بھی تائید کردی ہے۔ یہ نام واپس لینے پر مبصرین کا یہ کہنا غلط تو نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف نے اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے ایک اور ’’ یوٹرن‘‘ لیا ہے۔ محمود الرشید خاصے سنجیدہ سیاست دان سمجھے جاتے ہیں۔ کیا انہیں اندازہ ہے کہ اس ’’ رجعت قہقری‘‘ یا یوٹرن سے تحریک انصاف کو کتنا نقصان پہنچے گا۔ اب اگر مخالفین یہ کہیں کہ اس تائید و تردید سے پی ٹی آئی کی سنجیدگی کا انداز ہ لگایا جاسکتا ہے تو کیا غلط ہے۔ ناصر کھوسہ کے ماضی کے بارے میں یہ بات چھپی ہوئی نہیں تھی کہ وہ میاں نواز شریف کے اتنے قریب رہے ہیں کہ وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے سے پہلے انہوں نے اپنے پرنسپل افسر کے طور پر ناصر کھوسہ کا نام دیا تھا اور وہ پنجاب حکومت میں اہم عہدوں پر رہے ہیں ۔ اس پر مستزاد یہ کہ نواز شریف نے بھی ان کے انتخاب کی تعریف کردی جس سے تحریک انصاف کھٹک گئی۔ لیکن نام تو خود ہی دیا تھا،ناصر کھوسہ جہانگیر ترین کے ساتھ بھی کام کرتے رہے ہیں۔ یوں تو نگران جسٹس ریٹائرڈ ناصر الملک کے بارے میں بھی مشہور ہے کہ ان کے خاندان کی سیاسی وابستگی پیپلز پارٹی سے ہے اور یہ انتخاب پیپلز پارٹی کا ہے۔ تاہم وہ چونکہ ایک نیک نام جج رہ چکے ہیں اس لیے توقع ہے کہ سیاسی وابستگی اور پسند نا پسند سے بالاتر ہو کر انصاف کریں گے۔ فی الوقت چاروں صوبوں میں نگران حکومت کا معاملہ کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی ایک نام سامنے آیا تھا جو واپس لے لیا گیا۔ اسی اثنا میں عدالت عالیہ اسلام آباد نے 8اضلاع کی حلقہ بندیاں کالعدم قرار دے دی ہیں جس سے انتخابات متاثر ہوسکتے ہیں ۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ عدالت کو حلقہ بندیاں کالعدم کرنے کا اختیار ہی نہیں عدالت عالیہ کے فیصلے سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے کئی حلقے متاثر ہوں گے جس کی وجہ سے انتخابات ملتوی ہوسکتے ہیں تاہم تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ معمولی تاخیر پر اعتراض نہیں ۔ تاخیر معمولی ہی سہی لیکن کیوں ؟ عدالت عالیہ نے آبادی کا تناسب مدنظر رکھتے ہوئے نئی حلقہ بندیوں کا حکم دیا ہے۔ جن 8اضلاع کی حلقہ بندیاں کالعدم قرار دی گئی ہیں ان میں سے چھ کا تعلق پنجاب سے اور دو کا تعلق دیر زیریں اور بٹگرام سے ہے۔ این اے 52اسلام آباد بھی کالعدم اضلاع میں شامل تھا تاہم بے ضابطگیاں دور کرنے کی یقین دہانی پر پٹیشن خارج کردی گئی۔ اب ظاہر ہے کہ نئی حلقہ بندیوں میں وقت تو لگے گا مگر الیکشن کمیشن نے تو عدلیہ کا اختیار ہی چیلنج کردیا۔ لگتا ایسا ہے کہ عدالت عالیہ اسلام آباد کا یہ فیصلہ بھی کالعدم ہو جائے گا۔ الیکشن کمیشن نے 5مارچ کو نئی حلقہ بندیاں متعارف کرائی تھیں جس پر کئی سیاسی جماعتیں معترض تھیں اور انہوں اس کے خلاف درخواستیں دائر کردی تھیں۔ مسلم لیگ ن کے رہنما صاحبزادہ نذیر سلطان نے اعتراض کیا تھا کہ الیکشن کمیشن نے جھنگ میں ان کے حلقے این اے 90 کو برباد کردیا۔ جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ نے دیر زیریں میں اپنے حلقے کی تبدیلی پر احتجاج کیا تھا۔ جہاں تک عدالت عالیہ کا تعلق ہے تو اس کے سامنے جو درخواستیں آئیں گی ان پر فیصلہ تو دیا جائے گا۔ ممکن ہے کہ عدالت عالیہ کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا جائے۔ اس اثنا میں مرکزی حکومت اور حکومت پنجاب نے جاتے جاتے خزانوں کے منہ کھول دیے جس کو انتخابی دھاندلی میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ اپنی میعاد ختم ہونے سے دو دن پہلے وزیر اعظم نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی ( پیمرا) کے نئے چیئرمین کا تقرر کردیا اور یہ منصب حکومت پاکستان کے پرنسپل انفارمیشن افسر سلیم بیگ کو سونپ دیا۔ وہ انتخابات کے دوران کافی مفید ثابت ہوں گے۔ ادھر غیر سرکاری ادارے پلڈاٹ نے اپریل 2017ء سے مارچ 2018ء کے درمیان قبل از انتخاب انتخابی عمل کو غیر شفاف قرار دے کر انتخابی عمل کو مشکوک قرار دے دیا ہے۔ ادھر امریکا نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ملک میں عام تاثر یہ ہے کہ فرشتے اس بار بھی کام دکھائیں گے۔ وزیر اعظم نے بلوچستان اورسینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب کی مثال یونہی نہیں دی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنا گھر ٹھیک رکھیں تاکہ کسی غیر سیاسی قوت کو مداخلت کا موقع نہ ملے۔