کپتان کا خواب۔ دیکھیے تعبیر کیا نکلتی ہے!

336

ابھی انتخابات نہیں ہوئے، اہم بات یہ کہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنس پر احتساب عدالت کا فیصلہ آنا ابھی باقی ہے۔ گویا پیالے کے ہونٹ تک آنے میں ابھی کتنے ہی مرحلے باقی ہیں کہ کپتان نے فرض کرلیا ہے کہ آئندہ اسی کی حکومت ہوگی اور وہی وزارت عظمیٰ کے تخت پر فروکش ہوگا۔ چناں چہ اسی یقین کے ساتھ اس نے اپنی حکومت کے پہلے سو دن کا پلان قوم کے سامنے پیش کردیا ہے۔ کپتان نے ایک پُرہجوم پریس کانفرنس میں اپنے 100 روزہ پلان کی نقاب کشائی کی ہے اس پریس کانفرنس کو دیکھتے ہوئے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے کپتان نے واقعی وزیراعظم کا منصب سنبھال لیا ہے۔ وہ وزیراعظم ہاؤس میں موجود ہے اس کے اردگرد کابینہ کے ارکان بیٹھے ہیں۔ آج اس کی حکومت کا پہلا دن ہے اور وہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتا رہا ہے کہ وہ آئندہ 100 دنوں میں کیا کرنے جارہا ہے۔ اس پریس کانفرنس کو دیکھ کر ہمیں اللہ بخشے تحریک استقلال کے سربراہ ائر مارشل (ر) اصغر خان یاد آئے جو بھٹو کے خلاف 1977ء کی تحریک میں ایک ہیرو بن کر اُبھرے تھے۔ اگرچہ اس تحریک کے نتیجے میں ملک میں مارشل لا لگ گیا تھا اور جنرل ضیا الحق نے اس یقین دہانی کے ساتھ اقتدار سنبھال لیا تھا کہ وہ 90 دن کے اندر انتخابات کراکے بیرکوں میں واپس چلے جائیں گے۔ اصغر خان کو یقین تھا کہ ایسا ہی ہوگا اور انتخابات کے نتیجے میں اقتدار ان کی جھولی میں آگرے گا۔ ہمیں یاد ہے کہ اصغر خان (مرحوم) نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں 90 دن کے اندر انتخابات کے انعقاد کا ایسا ہی یقین ہے جیسا سورج کے مشرق سے نکلنے کا۔ اصغر خان نے ممکنہ اقتدار ملنے کے زعم میں سیاسی جماعتوں کے اتحاد، پی این اے کو بھی خیر باد کہہ دیا تھا کہ وہ حلیف جماعتوں کو اقتدار میں شریک نہیں کرنا چاہتے تھے، پھر وہ شاہ ایران کی آشیر باد حاصل کرنے کے لیے تہران جاپہنچے کیوں کہ شاہ ایران کو اُن دنوں جنوبی ایشیا میں امریکا کے پولیس مین کی حیثیت حاصل تھی اور اس کی مرضی کے بغیر پاکستان میں بھی اصغر خان کی حکومت کا قیام آسان نہ تھا۔ ہمارے ہیرو نے یہ مشکل مرحلہ طے کرلیا تو اسے یقین ہوگیا کہ اب کوئی طاقت اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔ سورج تو خیر مشرق سے ہر روز طلوع ہوتا ہے لیکن انتخابات کا سورج اصغر خان کی توقعات کے مطابق طلوع نہ ہوسکا اور جنرل ضیا الحق نے ’’پہلے احتساب پھر انتخاب‘‘ کا نعرہ لگا کر الیکشن غیر معینہ عرصے کے لیے ملتوی کردیا۔ اور اس کے بعد اصغر خان قصہ پارینہ بن گئے۔
اب اگرچہ حالات وہ نہیں ہیں۔ ملک میں جمہوری حکومت قائم ہے، آئین کے مطابق الیکشن کمیشن مقررہ مدت میں انتخابات کرانے کا پابند ہے اس نے انتخابات کے انعقاد کے لیے مجوزہ تاریخیں بھی دے دی ہیں، صدر کو اس سلسلے میں سمری بھی ارسال کردی ہے اور صدر نے ایک تاریخ (25 جولائی) پر انگلی بھی رکھ دی ہے۔ موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں 31 مئی کو سبکدوش ہوجائیں گی اور ان کی جگہ نگراں حکومتیں اختیارات سنبھال لیں گی جو اپنی نگرانی میں شیڈول کے مطابق انتخابات کرانے کی مجاز ہوں گی۔ گویا سب کچھ قرینے اور قاعدے کے مطابق ہورہا ہے اور بظاہر انتخابات کے التوا کا کوئی امکان نہیں ہے۔ لیکن ہمارے منہ میں خاک‘ انہونی کو کون ٹال سکتا ہے، سیاسی سطح پر ’’گھڑمس‘‘ مچا ہوا ہے، کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی، موجودہ وزیراعظم خلائی مخلوق کی دہائی دے رہا ہے اور اس کا تاحیات قائد آئے روز نئے نئے انکشافات کرکے خلائی مخلوق پر گولہ باری کررہا ہے، اس نے احتساب عدالت میں اپنے خلاف الزامات کا جواب دینے کے بجائے قومی سلامتی اور خفیہ اداروں کی سرگرمیوں کے بارے میں نئی بحث چھیڑ دی ہے جس پر میڈیا میں ہنگامہ برپا ہے اور رائے عامہ منقسم نظر آرہی ہے۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ انتخابات کے حق میں نیک شگون نہیں ہے۔ انتخابات پروگرام کے مطابق ہوئے تو اس میں پولیٹیکل انجینئرنگ کا بڑا دخل ہوگا۔ میاں نواز شریف کے حالیہ بیانات اور انکشافات کے بعد تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے لیے انتخابات میں اکثریت سے کامیابی کی گنجائش ختم ہوگئی ہے۔ اب شاید وہ پیپلز پارٹی سے بھی پیچھے چلی جائے۔ فی الحال تحریک انصاف کی گڈی چڑھی ہوئی ہے، موسمی سیاسی پرندے اُڑان بھر کر اس کی شاخ پر بیٹھ رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے دیرینہ کارکنوں کو گلہ ہے کہ انہیں نظر انداز کیا جارہا ہے، پارٹی کی سینئر رکن فوزیہ قصوری نے یہ کہہ کر پارٹی چھوڑ دی ہے کہ ہم جن لوگوں کے خلاف جدوجہد کے لیے میدان میں نکلے تھے اُن ہی کو ہم پر مسلط کردیا گیا ہے۔ اس طرح تحریک انصاف کا مقصد وجود ہی ختم ہوگیا ہے۔ اب اس میں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ تحریک انصاف میں ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت جوتیوں میں وہ دال بٹے گی کہ خود کپتان کے لیے منہ چھپانا مشکل ہوجائے گا، جو لوگ بھی تحریک انصاف میں شامل ہوئے ہیں ان کا واحد مقصد انتخابات کے لیے پارٹی ٹکٹ حاصل کرنا ہے، انہیں پارٹی کے منشور یا پروگرام سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، ٹکٹ نہ ملا تو وہ پارٹی سے منحرف ہوسکتے ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت کے زمانے میں یہ بات عام تھی کہ بھٹو کھمبے کو بھی کھڑا کردیں گے تو لوگ اسے ووٹ دیں گے۔ کپتان کے بارے میں یہ بات نہیں کہی جاسکتی وہ بیچارا تو ’’الیکٹ ایبلز‘‘ کے پیچھے مارا مارا پھر رہا ہے اور اس کے مخلص کارکن مایوس ہو کر کنارہ کش ہورہے ہیں، یہ تحریک انصاف کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔ بہرکیف کپتان کی آنکھوں میں وزارت عظمیٰ کا خواب لہرارہا ہے اُس نے اس خواب میں پوری قوم کو شریک کرنے کی کوشش کی ہے اب قوم کو اس خواب کی تعبیر کا انتظار کرنا چاہیے۔