موٹے افراد مچھلی زیادہ کھائیں

160

مچھلی کو اپنی غذا کا حصہ بنالینا درمیانی عمر میں جسم کے پھیلائو کی روک تھام میں مدگار ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ بات جاپان میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ مچھلی کے تیل میں پائے جانے والے اومیگا تھری فیٹس جسم کے اندر موجود چربی کے’’برے‘‘خلیات کو صحت مند میں تبدیل کردیتے ہیں جس سے کیلیوریز جلتی ہیں اور جسمانی وزن بڑھتا نہیں۔عام طور پر اڈھیر عمری یا درمیانی عمر میں یہ صحت مند فیٹ سیلز کم ہونے لگتے ہیں جس کے باعث کمر پھیلنا شروع ہوجاتی ہے۔تحقیق کے دوران دو اقسام کے جسمانی فیٹ کو جانچا گیا اور چوہوں پر ہونے والے تجربات سے معلوم ہوا کہ مچھلی کے تیل نے خراب خلیات کو صحت مند میں تبدیل کردیا۔محققین کا کہنا ہے کہ یہ تو پہلے بھی طبی تحقیقی رپورٹس میں سامنے آچکا ہے کہ مچھلی کے تیل کے متعدد طبی فوائد ہیں مگر یہ پہلی بار سامنے آیا ہے کہ یہ چربی کے خلیات کو درست رکھنے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔اس تحقیق کے دوران چوہوں کو چار ماہ تک مچھلی کے تیل سے بھرپور غذا دی گئی جس کے بعد جسمانی وزن میں 10 فیصد اور چربی میں 25 فیصد کمی دیکھی گئی۔محققین کے مطابق اومیگا تھری فیٹی اسیڈز دل کی صحت کے لیے بھی بہترین ہوتے ہیں جبکہ اس کا استعمال خون کی شریانوں کی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔
یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ہمارے پیٹ میں موجود بیکٹیریا (جراثیم) کا تعلق کھانا ہضم کرنے سے لے کر ہماری عمومی جسمانی صحت تک سے ہوتا ہے لیکن اب یونیورسٹی آف کیلیفورنیا لاس اینجلس (یو سی ایل اے) میں سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے دریافت کیا ہے کہ یہی بیکٹیریا ہماری سوچ اور جذبات پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کی وجہ سے ہمارا موڈ خراب یا خوشگوار ہو سکتا ہے۔ اب سے پہلے یہ تحقیق جانوروں پر کی گئی تھی لیکن یو سی ایل اے میں کرسٹن ٹیلش کی سربراہی میں یہ مطالعہ 40 صحت مند خواتین پر کیا گیا جن کی عمریں 18 سے 55 سال کے درمیان تھیں۔ ان تمام خواتین سے فضلوں کے نمونے لیے گئے اور ان میں 2 اقسام کے جرثوموں کی موجودگی کا جائزہ لیا گیا جبکہ اس کے فوراً بعد انہیں مختلف (یعنی مثبت اور منفی) جذباتی ردِعمل پیدا کرنے والی تصاویر دکھائی گئیں اور ایم آر آئی کی مدد سے ان میں دماغی سرگرمیوں کا تجزیہ کیا گیا۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ جن خواتین کے فضلے میں ’’بیکٹیریوئیڈز‘‘ قسم کے جرثوموں کی مقدار زیادہ تھی وہ اپنی یادداشت اور جذباتی کیفیات کے اعتبار سے زیادہ سرگرم تھیں اور تصاویر دکھائے جانے پر ان کے دماغ میں زیادہ ردِعمل دیکھا گیا۔ اس کے برعکس وہ خواتین جن کے فضلے میں ’’پریوٹیلا‘‘ جرثومے زیادہ تھے وہ جذباتی طور پر خاصی غیر سرگرم تھیں اور تصاویر دیکھنے پر ان کے دماغوں میں پیدا ہونے والی تحریک بھی خاصی کم تھی۔ تحقیقی مجلے ’’جرنل آف بی ہیوریرل میڈیسن‘‘ میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق، اس مطالعے سے ثابت ہوتا ہے کہ پیٹ میں مختلف جرثوموں کی موجودگی سے انسان کی جذباتی کیفیت بھی بدل جاتی ہے اور اس کا ردِعمل بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔
البتہ اس تحقیق پر بھی کئی اعتراضات موجود ہیں مثلاً یہ کہ اس میں صرف 40 خواتین شریک تھیں اور اتنی کم تعداد کی بنیاد پر انسانوں کی بڑی تعداد کے لیے کوئی حتمی نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا۔ علاوہ ازیں یہ مطالعہ صرف خواتین ہی پر کیا گیا تھا اور ہوسکتا ہے کہ مردوں میں پیٹ کے جرثوموں کے اثرات بالکل مختلف ہوں لیکن اس پہلو کو یکسر نظرانداز کردیا گیا۔

پیٹ کے جراثیم ہمارے جذبات پر بھی اثر ڈالتے ہیں

مچھلی کو اپنی غذا کا حصہ بنالینا درمیانی عمر میں جسم کے پھیلائو کی روک تھام میں مدگار ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ بات جاپان میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ مچھلی کے تیل میں پائے جانے والے اومیگا تھری فیٹس جسم کے اندر موجود چربی کے’’برے‘‘خلیات کو صحت مند میں تبدیل کردیتے ہیں جس سے کیلیوریز جلتی ہیں اور جسمانی وزن بڑھتا نہیں۔عام طور پر اڈھیر عمری یا درمیانی عمر میں یہ صحت مند فیٹ سیلز کم ہونے لگتے ہیں جس کے باعث کمر پھیلنا شروع ہوجاتی ہے۔تحقیق کے دوران دو اقسام کے جسمانی فیٹ کو جانچا گیا اور چوہوں پر ہونے والے تجربات سے معلوم ہوا کہ مچھلی کے تیل نے خراب خلیات کو صحت مند میں تبدیل کردیا۔محققین کا کہنا ہے کہ یہ تو پہلے بھی طبی تحقیقی رپورٹس میں سامنے آچکا ہے کہ مچھلی کے تیل کے متعدد طبی فوائد ہیں مگر یہ پہلی بار سامنے آیا ہے کہ یہ چربی کے خلیات کو درست رکھنے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔اس تحقیق کے دوران چوہوں کو چار ماہ تک مچھلی کے تیل سے بھرپور غذا دی گئی جس کے بعد جسمانی وزن میں 10 فیصد اور چربی میں 25 فیصد کمی دیکھی گئی۔محققین کے مطابق اومیگا تھری فیٹی اسیڈز دل کی صحت کے لیے بھی بہترین ہوتے ہیں جبکہ اس کا استعمال خون کی شریانوں کی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔
یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ہمارے پیٹ میں موجود بیکٹیریا (جراثیم) کا تعلق کھانا ہضم کرنے سے لے کر ہماری عمومی جسمانی صحت تک سے ہوتا ہے لیکن اب یونیورسٹی آف کیلیفورنیا لاس اینجلس (یو سی ایل اے) میں سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے دریافت کیا ہے کہ یہی بیکٹیریا ہماری سوچ اور جذبات پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کی وجہ سے ہمارا موڈ خراب یا خوشگوار ہو سکتا ہے۔ اب سے پہلے یہ تحقیق جانوروں پر کی گئی تھی لیکن یو سی ایل اے میں کرسٹن ٹیلش کی سربراہی میں یہ مطالعہ 40 صحت مند خواتین پر کیا گیا جن کی عمریں 18 سے 55 سال کے درمیان تھیں۔ ان تمام خواتین سے فضلوں کے نمونے لیے گئے اور ان میں 2 اقسام کے جرثوموں کی موجودگی کا جائزہ لیا گیا جبکہ اس کے فوراً بعد انہیں مختلف (یعنی مثبت اور منفی) جذباتی ردِعمل پیدا کرنے والی تصاویر دکھائی گئیں اور ایم آر آئی کی مدد سے ان میں دماغی سرگرمیوں کا تجزیہ کیا گیا۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ جن خواتین کے فضلے میں ’’بیکٹیریوئیڈز‘‘ قسم کے جرثوموں کی مقدار زیادہ تھی وہ اپنی یادداشت اور جذباتی کیفیات کے اعتبار سے زیادہ سرگرم تھیں اور تصاویر دکھائے جانے پر ان کے دماغ میں زیادہ ردِعمل دیکھا گیا۔ اس کے برعکس وہ خواتین جن کے فضلے میں ’’پریوٹیلا‘‘ جرثومے زیادہ تھے وہ جذباتی طور پر خاصی غیر سرگرم تھیں اور تصاویر دیکھنے پر ان کے دماغوں میں پیدا ہونے والی تحریک بھی خاصی کم تھی۔ تحقیقی مجلے ’’جرنل آف بی ہیوریرل میڈیسن‘‘ میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق، اس مطالعے سے ثابت ہوتا ہے کہ پیٹ میں مختلف جرثوموں کی موجودگی سے انسان کی جذباتی کیفیت بھی بدل جاتی ہے اور اس کا ردِعمل بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔
البتہ اس تحقیق پر بھی کئی اعتراضات موجود ہیں مثلاً یہ کہ اس میں صرف 40 خواتین شریک تھیں اور اتنی کم تعداد کی بنیاد پر انسانوں کی بڑی تعداد کے لیے کوئی حتمی نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا۔ علاوہ ازیں یہ مطالعہ صرف خواتین ہی پر کیا گیا تھا اور ہوسکتا ہے کہ مردوں میں پیٹ کے جرثوموں کے اثرات بالکل مختلف ہوں لیکن اس پہلو کو یکسر نظرانداز کردیا گیا۔