ہیٹ اسٹروک یا لُو

645

احتیاط اور بچاؤ
ڈاکٹر سیدہ صدف اکبر
( پی ایچ ڈی۔ مائیکرو بیا لوجی)

گرمیوں کا موسم ایک بار پھر اپنے عروج پر ہے، جس میں مختلف مسائل کے ساتھ سن اسٹروک جسے ہیٹ اسٹروک یا ’’لُو لگنا‘‘ بھی کہتے ہیں، کا مسئلہ بھی عام ہوجاتا ہے۔ جو لوگ گھر سے باہر زیادہ وقت گزارتے ہیں ان کو ہیٹ اسٹروک کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
گرمی کی شدت جب برداشت سے باہرہوجاتی ہے تو انسانی جسم اس درجہ حرارت کوبرداشت نہیں کرپاتا۔ خاص طور پر یہ موسم بزرگوں، بچوں اورخواتین پر بے حد اثر انداز ہوتاہے۔ ہیٹ اسٹروک یا لولگنا کسی بیماری کا نام نہیں بلکہ یہ انسانی دماغ کی ایک کیفیت کانام ہے جس میں انسانی دماغ اور انسان کا جسم باہری درجہ حرارت کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے کام کرنا چھوڑ دیتاہے۔ ایسی حالت میں اگر بروقت اور درست طریقہ علاج مہیا نہ کیا جائے تو موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو ہرگز بے جانہ ہوگا کہ لولگنا یا ہیٹ اسٹروک ایک طبی ہنگامی صورتحال ہے جس کا فوری علاج ضروری ہے۔
ہیٹ اسٹروک کی علامات میں جلدخشک اورگرم ہوجاتی ہے۔ پسینہ آنا بندہوجاتا ہے جس کی وجہ سے جسم کا خود کارنظام خودکوٹھنڈا نہیں کرپاتا۔ سانس لینے میں مشکل ہوتی ہے اور تیز تیز بہ مشکل سانس لینے کی وجہ سے سانس پھولنے لگتاہے۔
جسم کا درجہ حرارت اور دل کی دھڑکن اچانک بہت تیزی سے بڑھ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ سرمیں دھڑکن جیسا درد جسے تھروبوئنگ ہیڈ کہتے ہیں، شروع ہوجاتا ہے۔ بلڈ پریشر ایک دم گر جاتا ہے۔ اس کے علاوہ چکر آنا اور پیاس کی شدت میں اضافہ بھی اس کی علامات ہیں۔ مزید یہ کہ کمزوری اورپٹھوں میں کھنچاؤ پیدا ہوجاتاہے، اچانک تیز بخارسا ہوجاتا ہے اور متلی ، قے کی کیفیت شروع ہوجاتی ہے۔ جس کے بعد بے ہوشی طاری ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ بعض اوقات نکسیر بھی پھٹ جاتی ہے۔
وہ افراد جو اپنا زیادہ تر وقت باہر دھوپ میں گزارتے ہیں یا وہ لوگ جو گرم موسم میں پانی پیے بغیر بہت زیادہ جسمانی سرگرمیاں یا ورزش کرتے ہیں اور موسم گرما کی مناسبت سے لباس بھی زیب تن نہیں کرتے ان میں لو لگنے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے علاو ہ زیادہ تر بچے ، بزرگ افراد اور خواتین بھی متاثر ہوتی ہیں اور وہ لوگ جو کسی عارضے میں لمبے عرصے سے مبتلا ہوں مثلاً امراض قلب یا سانس کی تکلیف، ہائی بلڈ پریشر اور گردے کے مرض میں مبتلا افراد بھی ہیٹ اسٹروک کابا آسانی شکار ہو سکتے ہیں۔
ہیٹ اسٹروک کے شکار افراد کو فوری طورپر اسپتال پہنچانا چاہیے اور اگر اسپتال دور ہے یا کسی وجہ سے دیر لگے تو ابتدائی طبی امداد فوری فراہم کرنی چاہیے کیونکہ لو لگنے کی صورت میں ابتدائی طبی امدا د میں تا خیر موت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ مریض کو فوری طور پر دھوپ والی جگہ سے ہٹا کر کسی سایہ دار اور ائر کنڈیشنڈ جگہ پر ٹانگیں کسی اونچی چیز پر رکھ کر لٹا دینا چاہیے۔ مریض کے کپڑے اگر تنگ ہیں تو انہیں ڈھیلا کر دیں اور جسم کے درجہ حرارت میں کمی لانے کے لیے گردن، بغلوں، کلائیوں، ٹخنوں اور رانوں پر برف کی ٹکور کرنی چاہیے۔ جتنا ممکن ہو سکے ٹھنڈا پانی پلائیں۔
ہیٹ اسٹروک کے دوران جسم میں نہ صرف پانی کی کمی ہو جاتی ہے بلکہ نمکیات اور ضروری الیکٹرولائٹس کی مقدار بھی ضائع ہو جاتی ہے۔ لہٰذا اس صورت میں مریض کو نمکیات کی کمی کو دور کرنے کے لیے او۔ آر۔ ایس یا نمک ملا پانی پلانا چاہیے اور پھر کچھ دیر کے آرام کے بعد ٹھنڈے پانی سے ضرور نہانا چاہیے۔
لو لگنے کی صورت میں اگر مریض کو فوری طبی امداد نہ دی جائے تو مریض بے ہوشی یا کومے کی حالت میں بھی جا سکتا ہے۔ کچھ افراد میں جسم کے درجہ حرارت کے بہت زیادہ بڑھ جانے کی وجہ سے دل بھی کام کرنا چھوڑ سکتا ہے۔ گردے بھی ناکارہ ہوسکتے ہیں اور دماغ بھی اپنا کام کرنا چھوڑ دیتاہے جس کی وجہ سے مریض کی موت واقع ہوجاتی ہے۔
گرمیوں میں ہیٹ اسٹروک کے امکانات زیا دہ ہوتے ہیں، لہٰذا اس سے بچنے کے لیے مختلف تدابیر بھی اپنانی چاہییں تاکہ ممکنہ نقصان سے بچا جا سکے۔ لولگنے سے بچنے کے لیے خود کو گرمی اور دھوپ سے بچانا چاہیے۔ روزمرہ کے زیادہ تر کام صبح یا شام کے اوقات میں کر لینے چاہییں۔ جب سورج کی حدت میں نسبتاً کمی ہوتی ہے اور حتیٰ الامکان کوشش کرنی چاہیے کہ بلاوجہ گھر سے باہر نہ نکلیں اور زیادہ دیر تک تیز دھوپ میں نہ رہیں اور اگر بہت ضروری ہو تو چھتری یا کوئی گیلا کپڑا سر پر رکھ کر باہر جانا چاہیے اور اپنے ساتھ پانی کی ایک بوتل ضرور رکھیں۔
ڈھیلے اور ہلکے رنگوں کے ملبوسات زیب تن کرنے چاہییں اور گرمی میں گہرے رنگ خاص طور پر کالے رنگ کے لباس نہ پہنیں۔
گرم موسم میں زیادہ سے زیادہ پانی اور ٹھنڈے مشروبات کا استعال کرنا چاہیے۔ روزانہ کم از کم 3 سے 4 لیٹر پانی کا لازمی استعمال کریں۔ جس کے ذریعے ہما رے جسم میں نمکیات اور پانی کا توازن برقرار رہتا ہے۔ گرمیوں کے موسم میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں مختلف پھلوں سے نوازا ہے جو پانی سے بھرپور ہیں، ان سے لازمی مستفید ہونا چاہیے۔ تربوز گرمی کا بہترین توڑ ہے۔ اس کے ساتھ کھیرا، فالسہ اور آلو بخارہ بھی گرمی کے موسم میں مفید ہوتے ہیں۔ اس موسم میں تلی ہوئی اشیا، باسی خوراک اور پیک شدہ کھانوں سے حتیٰ الامکان پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ ان سے ڈائیریا کی شکایت بھی ہوسکتی ہے۔ موسم گرما میں زیادہ تیل، مرچ مسالوں والے کھانے اور گرم اشیا، چائے اور کافی کا استعمال کم سے کم کرنا چاہیے۔ موسم گرما میں خاص طور پر گھر میں پکے ہوئے تازہ اور صاف ستھرے کھانے کھانے چاہییں اور کھانوں کو درست درجہ حرارت پر پکانا چاہیے۔ تیار ہو نے کے بعد کھانے کو مناسب در جہ حرارت پر رکھنا چاہیے۔ گرم موسم میں کچے سلاد اورایسے پھل کھانے چاہییں جن میں پانی کی مقدار زیادہ ہو جیسے کھیرا، تربوز، آم، خربوزہ اور گاجر وغیرہ۔
طبی ماہرین کے مشورے کے مطابق شدید گرمی میں اینٹی ڈپریشن ادویات استعمال نہیں کرنی چاہییں کیونکہ اس سے فالج کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
موسم گرما میں عموماً لوگ گرمی کی شدت سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے سوئمنگ پول میں نہانا پسند کرتے ہیں۔ مگر اس بات کا خیال رکھا جائے ایسے تالابوں اور سوئمنگ پولز مختلف قسم کے مہلک جراثیم بھی پائے جاتے ہیں جن میں خاص کر نگلیریا فاؤلیری جسے دماغ کھانے والا امیبا کہتے ہیں۔ پانی میں نہانے کے دوران یہ مہلک جراثیم ناک کے ذریعے دماغ تک پہنچ کر موت کا باعث بن سکتا ہے اور موسم گرما میں درجہ حرارت کے اضافے کے ساتھ ان کی افزائش کی رفتار بھی تیز ہوجاتی ہے۔ لہٰذا سوئمنگ کرتے ہوئے زیادہ گہری ڈبکی لگانے سے گریز کریں اور گرمیوں کے موسم میں صاف اورمناسب کلورین کی مقدار رکھنے والے سوئمنگ پولز ہی کو ترجیح دیں۔
احتیاط علاج سے بہتر ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ احتیاطی تدابیر اختیار کرکے ہیٹ اسٹروک اور ان جیسی دیگرموسمی بیماریوں سے بچا جائے اور موسم کی خوبصورتی کو انجوائے کیا جائے۔