شاہد خاقان تہلکہ مچا ہی دیں

330

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنی حکومت کی مدت ختم ہونے سے ایک دن پہلے 30 مئی کو وزیراعظم آفس میں تیل و گیس کے شعبے میں اپنی حکومت کی 5 سالہ کارکردگی کے حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاہے کہ ’’ایل پی جی کوٹا اسکینڈل میں بڑے بڑے سیاسی لوگوں کے نام ہیں، بتادوں تو تہلکہ مچ جائے گا لیکن میں یہ گندا کام نہیں کروں گا۔‘‘ ان کا کہناتھا کہ دولت کمانے کے خواہش مندوں نے بہت بڑے بڑے کوٹے الاٹ کرائے جو قوم کے ساتھ ظلم تھا۔ جولائی 2017ء میں میاں نواز شریف کی معزولی کے بعد شاہد خاقان کی حیثیت عملاً ایک نگران وزیراعظم کی تھی اور اب وہ بھی ختم ہوگئی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ جاتے جاتے وہ ان بڑے بڑے سیاسی لوگوں کے نام بتاتے جاتے جنہوں نے قوم کے ساتھ ظلم کیا۔ تہلکہ مچتا ہے تو مچنے دیں۔ ایسے تہلکے تو پاکستان میں روز مچ رہے ہیں اور آئے دن بڑے بڑے لوگوں کے نام سامنے آرہے ہیں جن میں شاہد خاقان عباسی کے ’’وزیراعظم‘‘ میاں نواز شریف کا نام بھی شامل ہے ان پر مقدمات چل رہے ہیں۔ ایل پی جی کوٹے الاٹ کرانے والوں کا نام چھپانا بھی قوم پر ظلم ہے۔ شاہد خاقان نام بتادیتے تو ان کا کچھ نہ بگڑتا کیونکہ اب تو وہ حکومت میں نہیں رہے اور نگران حکومت بھی اس سلسلے میں کچھ نہ کرتی، یہ کہہ کر کہ اس کا کام تو انتخابات کراناہے، منتخب حکومت ہی یہ معاملہ دیکھے گی۔ یہ ہوسکتا ہے کہ شاہد خاقان جن بڑے سیاسی لوگوں کا نام منکشف کرتے وہ عدالت میں چلے جاتے جہاں معاملات برسوں تک چلتے رہتے اور نتیجہ کچھ نہ نکلتا۔ تاہم عوام اپنے اوپر ظلم کرنے والوں سے واقف ہوجاتے اور اگر یہ سیاسی لوگ ہیں تو ممکن ہے کہ عام انتخابات میں انہیں ووٹ ڈالنے سے گریز کرتے۔ ویسے تو ایل این جی کوٹا اسکینڈل میں خود شاہد خاقان کا نام بھی لیا جاتا رہا ہے۔ عباسی صاحب! قوم پر ظلم کرنے والوں کا نام بتانا گندا کام نہیں ہے اور آپ کے پاس جولائی 2017ء سے ملک کا اہم ترین منصب ہے، آپ نے ایسے لوگوں کے خلاف کیا کیا، کیا تحقیقاتی اداروں کو کوئی ہدایت جاری کی؟ پھر اب ان گمنام ظالموں کا ذکر کرنے کا کیا فائدہ۔ تیل و گیس کے شعبوں میں اپنی حکومت کی 5 سالہ کارکردگی بیان کرتے ہوئے کیا وزیراعظم نے یہ بھی بتایا کہ گزشتہ 5 سال میں پیٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتیں کہاں سے کہاں پہنچادی گئیں۔ اور اب پھر جاتے جاتے عوام پر پیٹرول بم گرانے کی تیاری ہے۔ اوگرا نے پیٹرول کی قیمتوں میں 8 روپے 37 پیسے کے ظالمانہ اضافے کی تجویز دے دی ہے۔ ڈیزل کی قیمت میں 12 روپے 50 پیسے بڑھانے کا امکان ہے۔ مٹی کے تیل سے تو جانے کیوں اوگرا کو شدید دشمنی ہے۔ کراچی سمیت کئی شہروں میں پیٹرول پمپ مالکان نے پیٹرول کی فروخت اس امید پر بند کردی کہ قیمت بڑھنے والی ہے۔ ن لیگ کی حکومت نے جاتے جاتے یہ کارنامہ سرانجام دیا تو انتخابات میں اس کے ووٹ متاثر ہوں گے چنانچہ امکان ہے کہ یہ کام کسی اور سے لیا جائے گا۔ تیل کے شعبے میں کارکردگی کا ذکر کرتے ہوئے یہ ضرور بتائیں کہ 5 سال پہلے تیل کی قیمتیں کیا تھیں اور آج کیا ہیں۔ اس وقت عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں گری ہیں۔ جہاں تک گیس کے شعبے کا تعلق ہے تو پنجاب سمیت دیگر صوبوں کے متعدد شہروں میں یہ عالم ہے کہ جن گھروں میں گیس ہے وہاں پریشر اتنا کم ہے کہ کھانا پکانے میں دشواریوں کا سامنا ہے اور ایسی خبریں آتی رہی ہیں کہ صبح کو بچے، بڑے بغیر کچھ کھائے گھر سے نکل جاتے ہیں۔ گیس کے نئے کنکشن ضرور دیے گئے ہیں لیکن فراہمی کا نظام بجلی کی طرح ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے وزیراعظم نے دو دن پہلے یہ دعویٰ بھی کردیا کہ شام 6 بجے سے صبح 4 بجے تک کہیں لوڈ شیڈنگ نہیں ہورہی۔ سخت گرمی میں دن بھر دس، دس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کا کوئی ذکر نہیں۔ افطار و سحر میں کئی شہروں میں بجلی غائب رہتی ہے۔ جھوٹ بولنا ویسے بھی گناہ ہے لیکن رمضان کریم میں تو اس سے ضرور اجتناب کرنا چاہیے۔ سربراہ حکومت کی غلط بیانی زیادہ خطرناک ہے۔ دریں اثنا وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اپنے اقتدار کے آخری دن یہ انتباہ کیا ہے کہ اگر کل سے لوڈ شیڈنگ ہوئی تو ہم ذمے دار نہیں، نگران حکومت ذمے دار ہوگی۔ یعنی لوڈ شیڈنگ بڑھے گی اور ذمے دار بھی کوئی نہیں ہوگا۔ شاہد خاقان عباسی صاحب ذمے داریوں سے آزاد ہوگئے ہیں چنانچہ اب تو بتادیں کہ کوٹا اسکینڈل میں کون کون لوگ ملوث ہیں۔