جمہوریت کا تسلسل، کیا کھویا اور کیا پایا؟

306

صدر مملکت ممنون حسین ملک میں 25 جولائی کو عام انتخابات کرانے کی منظوری دے چکے ہیں۔ 28 مئی کو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اتفاق رائے سے سابق چیف جسٹس، جسٹس ریٹائرڈ ناصر الملک کو ملک کا ساتواں نگراں وزیرعظم بنانے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ قارئین جب یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے ممکن ہے کہ ملک میں ناصرالملک کی حکومت شروع ہوچکی ہو۔ آئین کے تحت موجودہ جمہوری حکومت کی مدت 31 مئی کو ختم ہوجائے گی۔ اگر اس سے قبل وزیراعظم شاہد خاقان عباسی خود صدر مملکت کو اسمبلیاں ختم کرنے کی درخواست کرتے ہیں تو نگراں حکومت آئندہ تین ماہ میں الیکشن کرانے کی پابند ہوگی لیکن حکومت کی مدت ختم ہونے کے بعد آئین کے مطابق خود صدر مملکت اسمبلیاں معزول کرتے ہیں تو پھر آئندہ الیکشن 60 روز کے اندر کرانے ہوں گے۔ بہرحال قوم یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ جمہوری حکومت کے مسلسل دوسرے دور کے خاتمے پر جمہور نے کیا کچھ کھویا اور اسے کیا کچھ ملا۔
مسلم لیگ کی منتخب حکومت اپنے دور کے آخر میں اپنے وزیراعظم و قومی اسمبلی میں قائد ایوان نواز شریف کو ایوان کیا وزارت عظمیٰ سے بھی خارج کرنے سے نہیں بچاسکی۔ جس کے بعد نواز شریف بے بسی سے مسلسل ہر جگہ یہ سوال کررہے ہیں کہ: ’’مجھے کیوں نکالا‘‘۔ جب کہ اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کی ناکامی کی وجہ سے بزرگ وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کو برخواست کرکے قدر جوان مراد علی شاہ کو 26 جولائی 2016 کو چیف منسٹر بنایا۔ یہاں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی وفاق اور سندھ کی حکومتوں کی کارکردگی پر اس لیے نظر ڈالی جارہی ہے کہ ان دونوں جماعتوں نے ملک کے سب سے بڑے صوبے اور شہر کو گرفت میں کیا ہوا تھا۔ دونوں جماعتیں کرپشن پر قابو پانے کے دعوں کے برعکس بڑی کرپشن میں ملوث رہیں۔ جس کی دلیل یہ ہے کہ دونوں جماعتوں کے متعدد رہنما قومی احتساب بیورو (نیب) کے مختلف مقدمات میں ان دنوں پھنسے ہوئے ہیں۔ سندھ میں 2008 سے 2018 تک کھلی کرپشن ہی نہیں بلکہ مثالی بے قاعدگیوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ جس کی وجہ سے نیب متحرک ہوئی تو سندھ کی حکومت اور اسمبلی کے اراکین بھی نیب کو ختم کرنے کی کوشش میں مصروف ہوگئے۔ ان کی کوشش رہی کہ نیب کو سندھ بدر کردیا جائے اور اپنا صوبائی احتساب بیورو تشکیل دیدیا جائے۔ اس مقصد کے لیے پیپلز پارٹی نے سندھ اسمبلی میں اپنی مرضی کی قانون سازی کرنے کی بھی کوشش کی۔
دنیا بھر میں حکومتیں عوام کو جو کچھ سہولتیں فراہم کرتی ہیں ان میں صحت کی سہولت سب سے اہم ہے۔ مگر دی اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ کے 60 ممالک کے گلوبل ایکسیس ٹو ہیلتھ کئیر انڈیکس (طبی سہولیات تک رسائی کی عالمی فہرست) کے مطابق صحت سے متعلق عالمی درجہ بندی میں پاکستان 52ویں نمبر پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت 45 ویں اور نیپال 50 ویں پوزیشن کے ساتھ پاکستان سے آگے ہیں۔ رپورٹ میں وضاحت کی گئی ہے کہ عالمی ادارہ صحت نے 10 ہزار افراد کو بنیادی طبی سہولتوں کی فراہمی کے لیے ڈاکٹرز، نرسز اور مڈوائف کی مجموعی تعداد کم ازکم 23 مقرر کر رکھی ہے۔ پاکستان اس مقررہ حد پر بھی پورا نہیں اتر رہا۔ جب کہ اکنامک سروے آف پاکستان 2018-17 کے اعداد وشمار کے مطابق ہر دس ہزار افراد کے لیے دستیاب ڈاکٹرز، نرسز اور مڈ وائف کی اوسط مجموعی تعداد 17 ہے۔ سندھ میں دس ہزار کی آبادی کے لیے ڈاکٹرز، نرسز اور مڈ وائف کی اوسط تعداد محض دو اعشاریہ تین ہے۔
وفاقی حکومت اور سندھ حکومت نے کراچی کے لیے گزشتہ 5 سالہ دور میں کوئی بڑا منصوبہ مکمل نہیں کیا۔ وفاق نے شہر کے لیے گرین بس منصوبے کا سنگ بنیاد 10 جولائی 2014 کو رکھا اسے 3 سال یعنی 2017 میں مکمل ہونا تھا مگر تاحال مکمل نہ ہوسکا۔ کراچی کے لیے آب رسانی کے منصوبے کے فور کو بھی گزشتہ سال دسمبر تک مکمل کیا جانا تھا مگر اس سال دسمبر تک بھی اس کی تکمیل کا کوئی امکان نہیں ہے۔ کراچی سرکلر ریلوے کی تکمیل پر وفاق کوئی اعتراض نہیں ہے اس پروجیکٹ کو سندھ حکومت کو ایگزیکیوٹ کرنا ہے مگر تاحال اس منصوبے کے لیے بنیادی کام بھی نہیں کرایا جاسکا۔ اسی طرح کراچی کے لیے سیوریج کے نظام کی بہتری کے لیے ایس 3 کا منصوبہ جسے ہر حال میں مکمل ہونا تھا مگر ایسا لگتا ہے کہ یہ اب مزید کئی سال تک بھی مکمل نہیں ہوگا کیوں کہ وفاق نے اس منصوبے کے لیے اس وقت تک مزید فندز جاری نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ جاری کیے گئے فنڈز کا حساب نہیں دیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے ترجیحی بنیادوں پر بلدیہ عظمیٰ کراچی اور شہر کے ضلعی بلدیات اداروں کے اختیارات اور امور کار پر ضرب لگائی ساتھ ہی ان اداروں میں بے قاعدگیوں اور بدعنوانیوں پر آنکھیں بند رکھی۔ صفائی کے نظام کے لیے سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے نام سے 2015 میں علیحدہ ادارہ تشکیل دیا جو 3 ایم ڈی کی تبدیلی کے باوجود مکمل طور پر فنکشنل نہ ہوسکا۔
جمہوری ادوار میں ہمیشہ کی طرح گزشتہ دس سال سے کراچی ترقی سے تنزلی کی طرف جانے لگا۔ کراچی کی ترقی ہمیشہ منتخب بلدیاتی ادوار میں ہوئی جو ایک مثال ہے۔ مگر تمام جمہوری ادوار میں کراچی کو نقصان پہنچایا گیا یا یہاں نقصانات ہوتے رہے۔
کراچی جس کی تاریخ جمہوریت کے لیے قربانی دینے کے حوالے سے جانی جاتی ہے مگر اس کی بدقسمتی جمہوری حکومتوں کے بیش تر ادوار میں بلدیاتی انتخابات نہ ہونے سے اسے براہ راست نقصان پہنچا۔ کراچی میں ریکارڈ ترقیاتی کام سابق صدر جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے دور میں ہوئے جس کی وجہ ان تینوں ادوار میں بنیادی جمہوری نظام بھرپور طریقے سے رائج تھا۔ ختم ہونے والے جمہوری حکومت میں عدالت عظمیٰ کے حکم پر بلدیاتی انتخابات کرائے گئے لیکن لاہور اور کراچی کے بلدیاتی امور پر شب خوں مارکر انہیں کم کردیا گیا۔ کراچی کی بلدیہ کے پاس نہ تو پینے کے پانی کی فراہمی کا نظام ہے اور نہ ہی نکاسی اب کے امور اور نہ ہی صفائی ستھرائی کے بنیادی کاموں کی ذمے داری۔ نتیجے میں کراچی پیاسا ہونے کے ساتھ گندگی غلاظت کا بھی شکار ہوگیا۔ یہاں ہے تو اب صرف جمہوری نظام ہے۔ کیا ایسا جمہوری نظام اور جمہوریت آئندہ ملک کے سب سے بڑے شہر سمیت ملک اور قوم کی ترقی کا ضامن ہوگا۔ اس کا جواب صرف قوم کو دینا ہوگا اور آنے والے انتخابات کے ذریعے دینا ہوگا۔