کراچی ایک لاوارث شہر

289

پاکستان کو سب سے زیادہ کما کر دینے والا کراچی حکمرانوں کی عدم توجہ کے باعث لاوارث شہر بن کر رہ گیا ہے۔گذشتہ دور حکومت میں کراچی ایم کیو ایم ،اے این پی اور پیپلز پارٹی کی لسانی و نسلی سیاست کے باعث مقتل بنا رہا،مظلوم شہری قتل ہوتے رہے اور مصطفی زیدی کے اس مصرعے کی تصویر بنے رہے کہ ’’میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں‘‘۔شہری بنیادی ضروریات کے حصول سے زیادہ جان بچانے کی تگ و دو میں لگے رہے۔ فوج نے ایک بار پھر کمر کس لی تو شہر کے حالات بہتر ہوگئے اور اس کا کریڈٹ ن لیگ، پیپلز پارٹی والے لیتے رہے۔ حال ہی میں ختم ہونے والی حکومت میں پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات تو ہوئے مگران پر عملی طور پر کوئی پیش رفت نظر نہیں آئی۔پورا شہر کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا۔عدالت عظمیٰ نے نوٹس لیا مگر حکمرانوں اورمتعلقہ اداروں کے افسران نے سوائے باتیں بنانے کے کچھ نہیں کیا۔وفاق نے گرین لائن بس منصوبے کا آغاز کیا تو سندھ سرکار نے بلیو لائن چلانے کا بیڑا اُٹھالیا،مگر بسیں گرین ہوں یا بلیو تاحال چلتی نظر نہیں آرہیں البتہ شہر کو جگہ جگہ سے کھود کر کھنڈر ضرور بنادیا گیاجس کا تمام تر خمیازہ شہری بھگت رہے ہیں۔محولہ بالادونوں منصوبے وقت مقررہ پر مکمل نہ ہوسکے اور اب شہری آنے والی حکومت سے ان منصوبوں کی تکمیل کی توقع لگائے ہوئے ہوں گے۔ن لیگ نے منصوبے کی تکمیل میں تاخیر کا ذمہ دار سندھ حکومت کو ٹھہرایا کہ بس اسٹاپ بنانے اور بسیں سندھ حکومت کو خریدنی تھیں۔وزیر اعظم شاہد خاقان نے بسیں خرید کر دینے کی پیشکش بھی کی۔یونانی دور کی یاد دلاتی کباڑہ بسیں،بوڑھوں کی طرٖح ہانپتے چنگچی رکشے اس شہر کا مقدربنادیے گئے۔ایم کیو ایم نے پانچ سال اختیارات نہ ملنے کا رونا رو کر گزار دیے۔پی پی نے وفاق کو ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹ قرار دے کر پانچ سال پورے کرلیے۔ اب ایک بار پھر شہر میں الیکشن کی گہما گہمی ہے جسکی رونقوں میں عید بعد مزید ہوجائے گا۔پرانے کھلاڑی نئی پیکنگ میں سامنے آکر عوام کو ایک بار پھر وہی روایتی خواب دکھارہے ہیں مگر اس بار شاید کراچی کے عوام نے ’ساڈا حق ایتھے رکھ ‘کی ٹھان لی ہے۔ مہاجر احساس محرومی ،کوٹہ سسٹم ، نئے صوبہ کا، ایم کیو ایم کا 30 سال پرانا چورن اس بار فروخت ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ پیپلز پارٹی کی سندھ کو تقسیم نہیں ہونے دینگے کی قدیم گولی اس بار زود اثر نتائج نہیں دے رہی۔بجلی کے مارے کراچی کے پیاسے شہریوں کو چاہیے کہ اس بار الیکشن میں تما م تر تعصب، لسانیت، قومیت کو بالائے طاق رکھ کر پرانے مداریوں کے پرانے تماشوں سے منہ پھیر کر ایسی جماعتوں کو آزمائیں جنہیں اس سے پہلے ووٹ دے کر آزمایا نہیں گیا۔اگر کراچی کے شہری اس الیکشن میں بھی پرانے مداریوں کی شعبدہ بازی کا شکار ہوگئے تو پھر اگلے پانچ سال تک مہنگائی، بجلی کی لوڈشیڈنگ، قلت آب،ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی سمیت زندگی کی بنیادی سہولیات سے محرومی کے لیے تیار رہیں۔