جنرل درانی اور مادھوری گپتا کا دُکھ

404

جنرل اسد درانی کی متنازع کتاب کا قضیہ چھڑ گیا تو نواز شریف نے خواہ مخواہ اسے ڈان کو دیے گئے اپنے انٹرویو کے کیس کی طرح حساس قرار دے کر اور اسی کی طرح قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا۔ حقیقت میں میاں نواز شریف اور جنرل درانی کے کیسوں میں کوئی مطابقت نہیں، البتہ جنرل درانی کا معاملہ مادھوری گپتا سے کسی حد تک ضرور ملتا ہے۔
مادھوری گپتا اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن میں تعینات اسسٹنٹ پریس سیکرٹری تھی جب اسے دہلی بلا کر گرفتار کر لیا گیا۔ مادھوری پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ اسلام آباد میں آئی ایس آئی کے دو اہل کاروں کے ساتھ رابطے میں تھیں اور انہیں حساس معلومات فراہم کر رہی تھیں۔ ایک سائیڈ اسٹوری یہ تھی کہ مادھوری ایک پاکستانی نوجوان کو دل دے بیٹھی تھیں اور یہی راہ ورسم ان کی کلائی کی زنجیر بن گئی۔ آٹھ برس سے مادھوری گپتا ایک ناتمام محبت کا قرض عدالتوں میں پیشیوں اور قید کی صورت میں ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ چند دن قبل عدالت نے انہیں تین سال قید کی سزا سنائی۔ عدالت نے مادھوری گپتا کی چودہ سال قید کی حکومتی درخواست کے لیے محض ایک ای میل کو ناکافی ثبوت قرار دے کر مسترد کیا۔ اس طرح بھارت کی ریاست، وزارت خارجہ اور عدلیہ نے مادھوری گپتا کی پریم کہانی کو قومی مفاد کے خلاف قرار دے کر دوسروں کے لیے نشان عبرت بنانے کی کوشش کی۔ دیکھا جائے تو مادھوری نے کوئی جرم ورم نہیں کیا، بس ایک پاکستانی نوجوان سے کچھ راہ ورسم بڑھا لی اور یوں یہ بات اس ریاست، عدالت اور شعبے کے لیے قومی مفاد کے خلاف قدم قرار پائی جو مادھوری گپتا کو اپنی خدمات کے عوض تنخواہ اور مراعات دیتے تھے۔ ریاست اور حکومت خزانہ عامرہ سے مراعات لینے والے سے کسی شک کی بنیاد پوچھ گچھ کا اختیار بھی نہ رکھے تو پھر وہ ریاست تو نہ ہوئی موم کی ناک ہوئی۔ جنرل اسد درانی بھی پاکستان کی فوج سماجی سیاست اور میڈیا کی ایک بھولی بسری کہانی کا نام ہے۔ وہ خود کو دوبارہ یاد دلانے کے فن پر قدرت رکھتے ہیں اسی لیے وقفے وقفے سے پیرانہ سالی کے باجود ان کا نام میڈیا میں گونجنے لگتا ہے۔ سروس کے دوران بھی متنازع رنگ برنگی سیاسی کہانیوں کا کردار بن کر موضوع بحث بنے رہتے تھے تو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انہوں نے اپنا نام حافظے سے محو نہیں ہونے دیا۔
جنرل اسد درانی نے استنبول، دبئی اور کھٹمنڈو میں بھارتی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ اے ایس دولت کے ساتھ راز ونیاز کیے۔ رنگین شاموں، خوش کن دوپہروں میں انہوں نے مخاطب اور مقابل کے لیے اپنا دل وذہن چیر کر رکھا کچھ واقعات سنائے کچھ تجزیوں کے گھوڑے دوڑائے اور یوں ان کی ہر ادا اور لفظ ریکارڈ ہوتا رہا۔ یہاں تک ان محفلوں کی گفتگو ایک ضخیم کتاب کا مواد بن گئی اور یہ کتاب جنرل اسد درانی اور اے ایس دولت کی مشترکہ کاوش قرار پائی جاسوس کی سرگزشت کے عنوان سے شائع ہو کر منظر عام پر آئی۔ کتاب میں کوئی نئی بات نہیں۔ خیال بہت اچھوتا اور منفرد تھا اور کسی تخلیقی ذہن رسا کی کارستانی معلوم ہوتا ہے۔ دو ہمسایوں، دو حریفوں کی دو طاقتور خفیہ ایجنسیوں کے سربراہوں کو آمنے سامنے بٹھا دیا جائے اور ان سے یادوں اور رازوں کو گپ شپ کے انداز میں اگلوا لیا جائے۔ جنرل درانی نے ماضی کی یادوں کو بہت محتاط انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے مگر تجزیوں میں وہ رنگ آمیزی سے باز نہیں آئے۔ کشمیر کے حوالے سے ان کے بیان کردہ واقعات میں احتیاط جھلک رہی ہے مگر اسامہ بن لادن کے حوالے سے وہ تصوراتی خاکے کو حقیقت حال کے انداز میں بیان کرکے مبالغہ آرائی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسد درانی کے بیان کردہ واقعات بہت سی کتابوں اور تحقیقی مضامین میں بیان کیے جا چکے ہیں۔
اسد درانی نے جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے چیرمین امان اللہ خان کو کشمیر کی تحریک میں پیچھے دھکیلنے پر تاسف کا اظہار کیا ہے۔ مجھے اپنی وہ تحریریں یاد ہیں جب امان اللہ خان نے کنٹرول لائن توڑنے کے لیے لانگ مارچ کا اعلان کیا تو اسد درانی کے ساتھ جو اس وقت آئی ایس آئی کے چیف تھے ان کی ایک غیر تحریری مفاہمت ہوئی تھی۔ اس مفاہمت کا مرکزی خیال یہ تھا کہ مارچ کو کنٹرول لائن کے قریب چکوٹھی تک جانے دیا جائے گا مگر بھارت کی طرف سے آنے والے دباؤ کے باعث مارچ کو کنٹرول لائن سے بہت پہلے ہی روک دیا گیا۔ آزادکشمیر کی فورسز اور مارچ کے شرکاء میں خونیں تصادم ہوا اور ایک بڑے جلسے میں امان اللہ خان مرحوم نے اسد درانی کا نام لے کر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ جو سبکی اور شرمندگی بھارت کا مقدر تھی وہ جنرل درانی کی پالیسی سے مفت میں پاکستان کے حصے میں آئی۔ جنرل درانی پاکستانی فوج کے تھری اسٹار جنرل ہیں۔ ہلال جرات ہیں۔ حساس عہدوں اور مناصب پر فائز رہ چکے ہیں۔ آج بھی فوج کے دیے ہوئے گھر میں رہائش پزیر ہوں گے۔ کئی پلاٹ ان کی ملکیت ہوں گے۔ فوج کی پنشن اور خاک نشین سویلنز کے مقابلے میں فوج کا عطا کردہ کارڈ انہیں معاشرے میں ممتاز اور ممیز بنانے کا باعث ہوگا۔ اس سب کے عوض اگر فوج کا ادارہ ان کو بلا کر پوچھ گچھ کرنے، ان کے معاملات کے بارے میں تحقیقات کا حق بھی استعمال نہ کرے تو اور کیا کرے؟۔ پاکستان میں کچھ لوگ ان کے شریک کار اے ایس دولت کی اس رائے سے متفق ہیں کہ جنرل درانی نے ایسا بھی کوئی جرم نہیں کیا کہ انہیں جی ایچ کیو طلب کیا جائے اور ان کا نام ای سی ایل میں ڈال کر مزید تحقیقات کی جائے۔ فوج اپنے اصولوں اور ڈسپلن کے معاملات کو دوسروں سے زیادہ بہتر سمجھتی ہے وہ جس شخص پر ریٹائرمنٹ کے پچیس سال بعد تک مہربان ہے اور قبر تک مہربان رہنے کا وعدہ نبھانے کی پابند ہے بھلا اس کے معاملات اور معمولات کی تحقیق رکھنے کا حق بھی نہیں رکھتی۔ مانا جنرل درانی کے خیالات میں کوئی نیا پن نہیں۔ وہ فوج کے سیاسی اور علاقائی معاملات میں کردار پر مسلسل لکھ رہے ہیں۔ ان میں وہ اپنے تجربات ومشاہدات کا تڑکا بھی لگا تے ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز اسلام آباد کی ویب سائٹ پر پاکستانی فوج کی پالیسیوں یا پاکستان کی فوجی پالیسیوں کے حوالے سے ان کا تجزیاتی مضمون اب بھی موجود ہے جس میں بہت کچھ کھل کر بیان کیا گیا ہے۔ اب یہ جاننا ان کے سابق ادارے کا حق ہے کہ جنرل درانی دبئی، استنبول اور کھٹمنڈو کے پر تعیش مقامات پر اپنی پنشن کے پیسوں سے جاکر شغل تصنیف فرماتے رہے یا کوئی اور ادارہ ان کی میزبانی کرتا رہا اور وہ کوئی اور کون ہے ؟۔ مادھوری گپتا کی پریم کہانی اور پریم پتر کو قومی مفاد کے خلاف قرار دینے والے بھارتی پاکستان کو بھی یہ حق دیں کہ وہ جنرل اسد درانی کی بیرون ملک یاتراؤں اور ان کے تحقیق اور تصنیف کو قومی مفاد کے محدب عدسے میں جانچ سکے۔ فیصلے کی گھڑی تو ابھی بہت دور ہے۔