پانی کا ضیاع روکنا وقت کی اہم ضرورت

1145

عالمی ادارے آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں قلت آب کے شکار ممالک میں پاکستان تیسرے نمبر پر آچکا ہے۔اس کی اہم وجہ پانی کا ذخیرہ نہ کرنا اور پانی کا غیر مناسب استعمال ہے ۔گزشتہ برس پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں واپڈا کے چیئرمین مزمل حسین نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان میں ہر سال 25 ارب روپے مالیت کا پانی ضائع کردیا جاتا ہے۔چیئرمین کا کہنا تھا کہ پاکستان کے دریاؤں میں ہر سال 14.5 کروڑ ایکڑ فٹ پانی آتا ہے تاہم اس میں سے صرف 14 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ہی مناسب طریقے سے محفوظ کیا جاتا ہے۔پاکستان کونسل برائے تحقیقِ آبی ذخائر(پی سی آر ڈبلیو آر)نے بھی متنبہ کیا تھا کہ سال 2025 تک پاکستان میں پانی کی شدید قلت واقع ہوجائے گی اور خشک سالی کا خطرہ بڑھ جائے گا۔پاکستان کے قیام کے وقت ملک میں ہر شہری کے لیے 5 ہزار 6 سو کیوبک میٹر پانی تھا جو اب کم ہو کر 1 ہزار کیوبک میٹر رہ گیا ہے اور سال 2025 تک یہ 8 سو کیوبک میٹر رہ جائے گا۔حکمران طبقے کی جہاں یہ ذمہ داری ہے کہ وہ پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے چھوٹے ،بڑے ڈیم بنائے ۔وہیں شہریوں کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ پانی کے ضیاع کے بجائے کفایت شعاری اپنائیں۔پانی زندگی ہے اور زندگی سے بڑھ کر دنیا میں کچھ بھی نہیں ہے۔پانی اللہ کی نعمت اور اس کا ضیاع کفران نعمت ہے۔دیکھنے میں آیا ہے کہ ہم اپنے گھروں دفاتر سمیت ہر جگہ پانی ضائع کرتے ہیں۔ہوٹلوں، ریستورانوں دفتروں میں ہم آدھا گلاس پانی پیتے اور آدھا بے دردی سے پھینک دیتے ہیں پانی اتنا ہی لیں جتنی آپ کو پیاس ہے ۔اگر پیاس نہ بجھے تو مزید پانی لے لیں مگر اسے ضائع کرنے سے باز آجائیں۔گھروں میں خواتین برتن، کپڑے دھوتے ہوئے پانی کا اتنازیادہ استعمال کرتی ہیں کہ خود بھی بھیگ جاتی ہیں۔مرد حضرات کو چاہیے کہ وہ گھر کی خواتین کو پانی کے ضیاع سے روکیں،انھیں پانی کی قلت سے آگاہ کریں اور خواتین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو پانی کی اہمیت کے حوالے سے آگاہی دیں کیونکہ یہ بھی عام مشاہدہ ہے کہ پانی ضائع کرنے میں بچے اپنا ثانی نہیں رکھتے۔نہاتے وقت بھی ہم پانی کو آبشاربنا کر بہاتے چلے جاتے ہیں۔جتنے پانی سے درجنوں افراد غسل فرمالیں اتنا پانی فرد واحد نالوں کی نذر کردیتا ہے۔ غسل خانے میں ہم نلکا کھول کر بیٹھے رہتے ہیں ۔ مشاہدے میں یہ بات بھی آئی ہے کہ مساجد میں جتنے پانی سے دس افراد وضو کرلیں اتنا پانی ایک شہری وضو کرتے ہوئے بہا رہا ہوتا ہے۔علماء کرام کو بھی چاہیے کہ وہ جمعہ کے خطبات میں شہریوں کو پانی کے استعمال اور اس کے ضیاع کے حوالے سے احادیث کی روشنی میں نصیحت کریں۔ کراچی میں قلت آب سے نمٹنے کے لیے جہاں بدانتظامی پرقابو پانے کی ضرورت ہے وہیں پانی فروشوں کے خلاف بھی بھرپور کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔زیر زمین پانی کی لائنوں کی ازسر نو مرمت کرنے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ جب بھی واٹر بورڈ حکام کسی علاقے میں زیادہ پریشر سے پانی چھوڑتے ہیں تو جگہ جگہ سے پانی رسنے لگتا ہے اور سڑکوں گلیوں، شاہراہوں پر پانی کھڑا ہوجاتا ہے۔ اگر شہر میں پانی کی قلت ہے تو پھر ہزاروں کی تعداد میں منرل واٹر کہہ کرفروخت کرنے والی کمپنیوں ،کارخانوں کے پاس پانی کہاں سے آتا ہے؟ کون انھیں فروخت کرتا ہے؟حکومت اور متعلقہ اداروں کو اس جانب بھی توجہ دینی چاہیے۔غور طلب بات یہ بھی ہے کہ جب ہم منرل واٹر کی بوتل پیسے دے کر خریدتے ہیں تو ایک قطرہ بھی ضائع نہیں کرتے لیکن جب سرکاری پانی مفت میں ملے تو بے دردی سے استعمال کرتے ہیں۔شہریوں کو سوچنا چاہیے کہ اگر کل کلاں کو ایسا وقت آجائے جب ہمیں چلو بھر پانی بھی خریدنا پڑے تو تب ہم پانی کی کس قدر قدر کریں گے ۔بہتر یہی ہے کہ وہ وقت آنے سے پہلے پانی کی قدر کرناشروع کردیں۔پانی کی بچت کل ہمارے اور ہمارے بچوں ہی کے کام آئے گی۔