یورپ میں مسلمانوں سے بڑھتی ہوئی نفرت 

393

یورپ میں مسلمانوں سے بڑھتی ہوئی نفرت اوراسلاموفوبیا کے تناظر میں ڈنمارک نے بھی خواتین کے برقع اور نقاب پہننے پر پابندی عاید کردی ۔ڈنمارک کی مخلوط حکومت نے پارلیمان میں مسودہ پیش کیا ،جس کی موافقت میں 75جب کہ مخالفت میں 30ووٹ آئے۔ ڈنمارک میں چہرہ ڈھانپنے اور برقع اوڑھنے والی خواتین کی تعداد انتہائی کم ہے۔اس کے باوجود حجاب پر پابندی مقامی حکومت کی تنگ نظری اور اسلام دشمنی کی بھر پور عکاسی کرتی ہے ۔اس سے قبل آسٹریا ،فرانس اور بلجیم میں خواتین کے باحجاب ہونے پر پابندی لگائی جاچکی ہے۔ خاص طور پر فرانس میں تو حجاب کو تضحیک کا نشانہ بنا یا جارہا ہے۔گزشتہ دنوں مسلمان فرانسیسی لڑکی مریم پوجیتو نے اسکارف پہن کر ایک ٹی وی کو انٹرویو دیا،جس کے بعد وہاں کے میڈیا سے لے کر وزرا تک ہر ایک نے زہر اگلنا شروع کردیا ۔فرانسیسی جریدے چارلی ہیبڈو نے تو تمام اخلاقی حدیں پار کرلیں جب اس نے سرورق پر مریم کا بندر نما کارٹون شائع کیا ۔یہی نہیں بلکہ مریم کا فون نمبر آن لائن میڈیاپر شیئر کیا گیا ، جس کے بعد انہیں نفرت آمیزپیغامات کے ذریعے تنگ کیا جارہاہے ۔فرانس ہی میں کچھ عرصہ قبل ایک صحافی مسلمان لڑکی کو صرف اس لیے ویزا دینے سے انکار کردیا گیا تھا کہ اس نے مقامی وزیر سے ہاتھ ملانے سے انکار کردیا تھا ۔دنیا کو تہذیب کا سبق پڑھانے والوں کے ہاں خود بد تہذیبی کا کیا حال ہے اس کے لیے کسی تحقیق کی ضرورت نہیں ۔اس طرح کے واقعات ہی ان کا پول کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ ڈنمارک حکومت نے روایتی انداز میں بیان دیا ہے کہ پابندی کا ہدف کوئی مذہب نہیں ہے ۔ اس کا ثبوت دینے کے لیے مردوں کو سرپر ٹوپی اور خواتین کو اسکارف لینے کی اجازت مرحمت کی گئی ہے ۔ڈینش حکام نے بڑی بے دردی سے خواتین کے برقع کو مذہب سے خارج کردیا ۔ پردے کا حکم تو شعائر اسلام میں سے ہے ، جب کہ مغرب میں رہنے والی مسلم خواتین کے لیے تو واحد علامت حجاب ہی ہوتا ہے ۔ ان حالات میں پابندیوں کا مقصد وہاں بسنے والے مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔طرفہ تماشا ہے کہ پورے یورپ اور امریکا میں عیسائی مذہبی اداروں سے تعلق رکھنے والی ننیں حجاب استعمال کرتی ہیں ان پر کوئی پابندی نہیں۔