کاغذات نامزدگی بھی کالعدم 

318

خدا خدا کرکے ایک بار پھر سول حکومت نے اپنی 5 سالہ مدت پوری کی اور 25 جولائی کو نئے انتخابات کی تاریخ دیدی گئی ہے۔ لیکن اچانک کچھ ایسی رکاوٹیں سامنے آرہی ہیں جن سے انتخابات کا بروقت انعقاد مشتبہ ہوتا جارہا ہے۔ تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ عدالت عالیہ لاہور نے پارلیمان کے تیار کردہ کاغذات نامزدگی مسترد کردیے ہیں۔ عدالت نے ان کاغذات نامزدگی کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو نئے کاغذات نامزدگی تیار کرنے کا حکم دیا ہے چنانچہ الیکشن کمیشن نے ریٹرننگ افسران کو فارم جاری کرنے سے روک دیا۔ اس فیصلے کے خلاف نگران وزیراعظم اور الیکشن کمیشن عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنے جارہے ہیں۔ اب اگر نئے کاغذات نامزدگی تیار کرکے چھاپے جائیں تو اس کام میں وقت لگے گا۔ متعدد حلقہ بندیاں عدالت عالیہ اسلام آباد کے حکم پر کالعدم قرار دی جاچکی ہیں اور الیکشن کمیشن کو فوری طور پر نئی حلقہ بندیاں کرنے کے احکاما ت جاری کیے ہیں۔ یہ سارا کام اس وقت شروع ہوا جب آئندہ عام انتخابات کی تاریخ اور شیڈول کا اعلان ہوچکا ہے۔ کچھ لوگ یہ خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ شاید انتخابات اس وقت تک ملتوی ہوجائیں جب تک سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے مقدمات کا حتمی فیصلہ نہ ہوجائے۔ اس کے بعد کسی بڑی سیاسی تبدیلی کی آس ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو سمجھتا ہے کہ ن لیگ منظر سے باہر ہوجائے گی یا اتنی کمزور ہوجائے گی کہ مرکزمیں حکومت نہیں بناسکے گی۔ ممکن ہے کہ اس میں اسٹیبلشمنٹ کا بھی کچھ عمل دخل ہو کیونکہ نواز شریف کے بیانات نے اسے ناراض تو کیا ہے۔ عدالت عالیہ لاہور کا کہنا ہے کہ پارلیمان کے تیار کردہ کاغذات نامزدگی آئین سے متصادم ہیں۔ چنانچہ الیکشن کمیشن نے بھی کہا ہے کہ امیدواروں کو ماضی کی طرح ختم نبوت پر ایمان کا حلف دینا ہوگا۔ ختم نبوت کے حلف میں تبدیلی پر بڑا ہنگامہ ہوچکا ہے اور اس کا اثر ن لیگ کی حکومت پر پڑا ہے۔ عدالت عالیہ لاہور کی جسٹس عائشہ ملک نے آئینی ماہر سعد رسول کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ نئے کاغذات نامزدگی میں آئین کی شق 62 اور 63 کے تقاضے دوبارہ شامل کیے جائیں۔ کاغذات نامزدگی میں غیر ملکی آمدن، زیر کفالت افراد کی تفصیلات، مقدمات کا ریکارڈ، ٹیکس ڈیفالٹر ہے تو اس کا اظہار، قرض نادہندگی، دہری شہریت، یوٹیلٹی ڈیفالٹ، دہرا پاسپورٹ اور مجرمانہ سرگرمیاں سمیت سب کچھ شامل کیا جائے۔ التوا کے خدشات کے برعکس چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ کوئی غلط فہمی میں نہ رہے، الیکشن میں تاخیر نہیں ہونے دیں گے۔ لیکن عدالتیں جو فیصلے کررہی ہیں ان کی وجہ سے التوا کے امکانات قوی ہیں۔ نگران وزیراعظم بھی کہہ رہے ہیں کہ بروقت انتخابات کا انعقاد اولین ترجیح ہے۔ التوا کے لیے بلوچستان اسمبلی کی قرار داد اور خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ کا الیکشن کمیشن کے نام خط کچھ اور کہہ رہا ہے۔ پرویز خٹک کا کہنا ہے کہ فاٹا ریجن میں بھی انتخابات پورے ملک کے ساتھ ہوں۔ اس کے لیے انتخابات میں تاخیر کرنے میں کچھ ہرج نہیں ہے۔ سابق وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم بھی گرمی اور رمضان کو بطور عذر پیش کررہے ہیں جب کہ رمضان کریم تو اب چند دن کا رہ گیا ہے۔ جہاں تک کسی ہرج کی بات ہے تو پاکستان میں برسوں تک عام انتخابات نہیں ہوئے تب بھی بہت سے لوگوں کے لیے کوئی ہرج نہیں ہوا۔ اس بار وقت پر انتخابات ہوجانے دیں تاکہ نئی حکومت کام سنبھال لے۔ اگر تاخیر ہوئی تو اس صورت میں نگران وزیراعظم کی مدت میں بھی اضافہ کرنا پڑے گا جو آئین کے مطابق صرف 60 دن کے لیے ہے۔ اگر اضافہ ہوا تو کتنا ہوگا اور کہیں یہ بہت طول نہ کھنچ جائے۔