ن لیگی حکومت کا پنج سالہ معاشی سفر

مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے ختم ہوگئی ہے اور جس وقت آپ کے سامنے یہ الفاظ ہوں گے نگراں حکومت کا دور شروع ہوچکا ہوگا ان آخری دنوں میں وزیراعظم خاقان عباسی روزانہ نئے منصوبوں کا افتتاح کررہے ہیں حکومت کی کارکردگی بتانے کے لیے پریس کانفرنس کررہے ہیں، پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر ان کی شاندار کارکردگی پر اشتہارات چل رہے ہیں اس کے علاوہ تجزیہ نگاروں اور سنجیدہ حلقوں میں بھی حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی زیر بحث ہے۔کارکردگی کے معاملے میں معاشی کارکردگی ایک اہم میدان ہے جس کے نمایاں اشاریوں (Indicators) میں پیداوار، قیمتوں کا استحکام، شرح مبادلہ، مالیاتی خسارہ، تجارتی خسارہ، بیروزگاری کی شرح، آمدنی میں عدم مساوات اور ٹیکسوں کی شرح وغیرہ شامل ہیں یہی وہ پیمانے ہیں جن کی بنیاد پر بہتر یا خراب کارکردگی سامنے آتی ہے مثلاً بجلی کی پیداوار اور لوڈشیڈنگ کے مسئلے کو لیجیے یہ عوامی مسئلہ بھی ہے اور معاشی و اقتصادی بھی۔ پچھلے برسوں میں شدید لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں 2 فی صد کا نقصان ہوا، آج مئی 2018ء میں ساہیوال کول پاور پلانٹ، بھکی پاور پلانٹ اور قائداعظم سولر پارک وغیرہ کے باعث بجلی کی پیداوار 14 ہزار میگاواٹ سے 20 ہزار میگاواٹ تک پہنچ گئی ہے۔ لیکن دوسری طرف بجلی کی تقسیم و ترسیل کا نظام وہی پرانا ہے جس کی وجہ سے ملک میں 8631 فیڈرز میں سے ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ ایسے ہیں جہاں لائن لاسنز (Line Losses) اور چوری نہیں ہورہی ہے، باقی فیڈرز میں 10 فی صد سے 50 فی صد تک مکمل ریکوری نہیں ہورہی۔ لہٰذا لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسری طرف بجلی کے نرخ 2013ء میں اوسطاً 9 روپے فی یونٹ تھے اب ساڑھے 12 روپے فی یونٹ ہوگئے ہیں یعنی بجلی کے نرخ پاکستان میں ساؤتھ ایشیا اور پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہیں۔سال 2013ء میں حکومت سنبھالنے کے بعد ڈالر میں پاکستانی روپے کا ریٹ 98 روپے ہوگیا تھا لیکن مئی 2018ء میں امریکی ڈالر 118 روپے کا ہوگیا ہے۔ اس سے بیرونی قرضوں کا حجم پاکستانی کرنسی میں بڑھ گیا ہے، اسی کے ساتھ درآمدی اشیا مہنگی ہوگئی ہیں جن میں ادویات اور بچوں کی خوراک بھی شامل ہے۔ جہاں تک بیرونی قرضوں کا تعلق ہے اس پر حکومت مسلسل تنقید کا نشانہ بنتی رہی ہے کیوں کہ بیرونی قرضے جو 2013ء میں 46 ارب ڈالر تھے 91 ارب ڈالر ہوگئے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ مجموعی قومی پیداوار میں اضافے کے لحاظ سے شرح میں کمی آئی ہے مگر آزاد معاشی ماہرین حکومت کی رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔ مجموعی قومی پیداوار (GDP) کی شرح نمو سال 2017-18 میں 5.8 فی صد ہوگئی ہے جب کہ یہ شرح 2013ء میں 3.1 فی صد تھی۔ یہ ایک نمایاں کارکردگی ہے، اسی کے ساتھ بڑے پیمانے کی صنعت (LSM) اور زراعت کی شرح نمو بھی بہتر ہوئی ہے لیکن اس کے ساتھ تباہ کن صورت حال ملکی برآمدات کی ہے جو (ن) لیگ کے دور حکومت میں مسلسل گرتی رہیں، اس پر ان صفحات پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ برآمد کنندگان، بزنس مین، ماہرین معیشت اور آزاد تھنک ٹینک اس پر مسلسل تشویش کا اظہار کرتے رہے، ٹیکسٹائل کی صنعت مسلسل مشکلات کا شکار رہی، سیکڑوں ٹیکسٹائل ملز بند ہوگئیں مگر حکومت کے کان پر جوں نہ رینگی۔ پچھلے سال حکومت کو ہوش آیا کچھ اقدامات کیے برآمدی سیکٹرز کو سبسڈی فراہم کی اس کا نتیجہ یہ ہے کہ برآمدات کا حجم جو 2013ء میں 25 ارب ڈالر تھا سال 2017-18 میں امکان ہے کہ برآمدات دوبارہ 25 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گی جب کہ حکومت کا برآمدی ہدف 35 ارب ڈالر تھا۔ دوسری طرف درآمدات 50 سے 52 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔ چناں چہ تجارتی خسارہ 25 سے 30 ارب ڈالر کا ہوگا اس وجہ سے بیرونی شعبہ دباؤ کا شکار ہے جب کہ پاکستان کو ہر سال 5 ارب ڈالر قرضوں کی واپسی کے لیے بھی چاہئیں، اتنے ڈالروں کا انتظام کیسے ہوگا اسی سلسلے میں حکومت نے چین کے ساتھ مختلف سمجھوتے کیے ہیں اور پاکستان چین تجارت کو چینی کرنسی میں کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے اس سے کسی حد تک یہ دباؤ کم ہوسکتا ہے۔ دوسری صورت میں پاکستان کی نئی حکومت کو دوبارہ آئی ایم ایف کی طرف جانا پڑے گا۔آمدنی و اخراجات کا معاملہ یہ ہے کہ حکومت نے ٹیکسوں کی وصولیابی کے لیے بہتر اقدامات کیے ہیں جس سے ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح بہتر ہوئی ہے مگر اسی کے ساتھ ساتھ انتظامی اور ترقیاتی اخراجات میں اس سے کہیں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ آخری مالی سال میں سیاسی محرکات کو سامنے رکھ کر بھی اخراجات کیے گئے ہیں موجودہ مالی سال کے لیے مالی خسارہ کا حجم 1800 ارب روپے ہے اس طرح جی ڈی پی کے لحاظ سے مالی خسارہ (Fiscal Deficit) 5.2 فی صد ہے جو 4.2 فی صد ہونا چاہیے۔ یہ خسارہ بھی اندرونی قرضوں سے پورا ہوگا اور بعد میں ان کی ادائیگی کے باعث سماجی شعبہ متاثر ہوگا۔ سماجی شعبے میں گزشتہ پانچ سال میں کوئی بہتری نہیں آئی، اس وقت بھی تعلیم اور صحت پر بہت کم خرچ کیا جاتا ہے اسی وجہ سے پاکستان کی 40 فی صد آبادی بنیادی صحت کی سہولت سے محروم ہے۔ 50 فی صد آبادی صاف پانی کی پہنچ سے دور ہے۔ 40 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، شرح خواندگی صرف 60 فی صد ہے اور خواندگی کا معیار انتہائی پست ہے۔
پاکستان کے غریب، بے بس اور محروم عوام جو زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں وہ اُمید بھری نظروں سے اگلی حکومت کو دیکھ رہے ہیں کہ کیا وہ ان کے حالات بہتر بناسکے گی۔