لاپتا افراد کو مفرور دینے کا انکشاف مزید 42 غائب کردیے گئے 

254

کراچی (رپورٹ خالد مخدومی) قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جبری طور پرلاپتا کیے گئے افراد کو مفرور قرار دینا شروع کردیا،یہ حربہ عدالتوں کی جانب سے نوٹس لیے جانے اور بڑھتے ہوئے عوامی احتجاج کے بعد استعمال کیاجارہا ہے ،دوسری طرف ملک کے مختلف حصوں سے جبری طور پرلاپتا مزید 10افراد کی فاٹا میں کے حراستی مراکز اور مختلف جیلوں میں موجودگی کا انکشاف ہو اہے، جولائی 2017میں ساہیوال سے لاپتا شخص بارے میں مئی 18 میں
بتایا گیا کہ وہ ایک مبینہ مقابلے میں مارا گیا ،اسی طرح جون 2016 ء میں لاپتا ایک شخص کے بارے میں مئی 2016ء میں انکشاف کیاگیاکہ اس کو ایک عدالت سے 14سال قیدکی سزا سنائی جاچکی ہے ،مئی میں ملک بھر سے مزید 86افراد کو جبری طور پر لاپتا کردیا گیا جبکہ برسوں سے لاپتا 42 افراد پر اسرار طور پر گھروں کوپہنچ گئے، لاپتا افرا د کے کمیشن کی سرکاری رپورٹ کے مطابق ملک بھر سے جبری طورپراب تک لاپتا رہنے والے افراد کی تعداد1822 سے بڑھ کر 1846ہوگئی جبکہ غیر سرکاری تنظیمیں یہ تعداد 6 ہزار سے زائد بتاتی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں قائم لاپتا افرا د کے کمیشن کی مئی 2018ء میں جاری ہو نے دستاویزات میں جبری طور لاپتا افراد میں کچھ کے بارے میں مزید حقائق سامنے آگئے،عدالت عظمیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے شہریوں کوجبری طورپر لاپتا کرنے کے واقعات پرنوٹس لیے جانے اور لاپتا افرادکے لواحقین کی جانب سے بڑھتے ہوئے احتجاج کے بعد قانون نافذکرنے والے اداروں نے ان پر اوپرسے آنے والے دباؤ کو کم کرنے کے لیے مختلف اقدامات شروع کردیے ،جبری طور پر لاپتا کیے گئے جن افراد کے لواحقین نے ان کی بازیابی کے لیے عدالتوں یا لاپتا افراد کی تلاش کے لیے بنائے گئے کمیشن سے رجوع کیا،اب قانون نافذ کرنے والے ایسے لاپتا افرادکو مفرور قرار دینے کاسلسلہ شروع کردیاہے ،اس بات کاانکشا ف لاپتاافراد کی تلاش کے لیے بنائے گئے کمیشن کی31مئی 2018ء کوجاری ہونے والی رپورٹ سے ہوا ،مذکورہ رپورٹ میں کئی برس سے لاپتا9افراد کے بارے میں دعویٰ کیاگیاہے کہ وہ مختلف مقدمات میں مطلوب تھے اس لیے مفرو رہو گئے ہیں ،لاپتاافراد کے کمیشن کی رپورٹ میں اس بات کا بھی انکشاف ہو اہے کہ برسوں سے 10 افراد فاٹا میں قائم حراستی مراکز اور ملک کی مختلف جیلوں میں موجود ہیں 2015ء میں مہمند ایجنسی سے جبری طور پر لاپتاکیے جانے والے خالد خان کے اہل خانہ کو تقریباً3سال کے بعدمئی2018ء میں مطلع کیا گیاکہ وہ فاٹا میں بنائے گئے ایک حراستی مرکز میں موجود ہے اور اس کو ایک فوجی عدالت سے 14سال قیدکی سزاسنائی جاچکی ہے ، رپورٹ میں اس بات کابھی ذکر کیاگیاہے کہ جولائی 2016میں ساہیوا ل سے لاپتا ہونے والے امجدسلیم کے بارے میں قانون نافد کرنے والے ادارے نے مئی 2018ء میں اعتراف کیاکہ وہ مبینہ مقابلے میں مارا گیاہے ، کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں شہریوں کاجبری طور پر لاپتا کیے جانے کاسلسلہ جاری ہے ،مئی2018ء میں جبری طور پر لاپتا کیے جانے والے مزید86افراد کے اہل خانہ نے کمیشن سے رابطہ کیا اور ان کی بازیابی کے لیے درخواستیں دیں جبکہ مئی میں 42 ایسے فرادپر اسرار طور پر اپنے گھروں کولوٹ آئے جو برسوں سے لاپتا تھے ۔جسارت نے بازیاب ہو نے والے افراد سے رابطہ کر کے ان سے بات چیت کرنی چاہی مگر کسی نے بھی اپنی گمشدگی اورواپسی کی بارے میں کسی قسم کی بات کرنے سے انکار کردیا۔سرکاری رپورٹ کے مطابق اس وقت اسلام آباد سے جبری طور پر لاپتاافرادکی تعداد 73پنجاب سے 303،سندھ سے 207 ،خیبر پختونخوا سے983، بلوچستان سے 151، فاٹاسے 102 ، آزاد کشمیر سے 22 اور گلگت بلتستان سے 5ہیں، دوسری طرف انسانی حقوق کی تنظیموں نے لاپتا افراد کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ کو ایک مرتبہ پھر مسترد کردیاہے ،ان کے مطابق کمیشن کی رپورٹ کے برعکس ملک بھرمیں لاپتا افراد کی تعداد کمیشن کی رپورٹ سے کئی گنازیادہ ہے اوریہ تعداد 5 ہزار سے تجاوزکرچکی ہے۔