اَلمُلک ﷲوَالحُکمُﷲ

354

عدالت عظمیٰ کے سربراہ چیف جسٹس پاکستان جناب جسٹس ثاقب نثار نے بعض سیاسی لیڈروں، ان کے بیٹوں اور رشتے داروں کو سیکورٹی دینے پر برہمی کا اظہار کیا ہے اور بالکل بجا کیا ہے۔ انہوں نے مختلف مقدمات کی سماعت کے دوران جو ریمارکس دیے ہیں ان میں ایک بہت اہم بات بھی کہی ہے وہ کہتے ہیں کہ حاکمیت صرف اﷲ اور قانون کی ہوگی۔ بس سارا مسئلہ پاکستان میں یہی ہے کہ 70 برس میں اس ملک میں اﷲ اور قانون کی حاکمیت کے سوا ہرایک کی حاکمیت قائم کی جاچکی ہے اسی لیے آج بد امنی، بے روزگاری، مہنگائی، ذلت و رسوائی مقدر بنی ہوئی ہے۔ چیف جسٹس کے ریمارکس پر اگر بات کی جائے تو اندازہ ہوگا کہ اس ملک کی عدالتیں فوج، سیاست دان، بیوروکریسی حتیٰ کہ عوام بھی اس ملک میں اﷲ کی حاکمیت کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتے رہے ہیں۔ بات تو رانا ثنا، مریم اورنگزیب، انوشہ رحمان، عابد شیر علی، احسن اقبال کے بیٹے کو سیکورٹی دینے کے مسئلے پر شروع ہوئی تھی لیکن پہنچ گئی اﷲ کی حاکمیت تک۔ یہ درست ہے ان لوگوں کو سیکورٹی کی ضرورت بھی نہیں یا ان کا استحقاق نہیں لیکن کیا جو لوگ سیکورٹی کے مزے لے رہے ہیں یا سرتا پا سیکورٹی ہوتے ہیں ان کو اس کا استحقاق ہے؟؟ چیف جسٹس سمیت تمام ادارے اس حوالے سے خاموش ہیں اور رہتے ہیں۔ چیف صاحب اپنے ریمارکس میں اس قدر جذباتی ہوگئے کہ ایسا معلوم ہورہاتھا گویا وہ اور سیاست دان ایک دوسرے کے حریف ہیں۔ وہ کہتے ہیں یہ لوگ ایک طرف تو عدلیہ کو گالیاں دیتے ہیں اور دوسری طرف سیکورٹی مانگتے ہیں۔ اس سے تو لگ رہا ہے کہ جو لوگ عدلیہ کی تعریفیں کرتے ہوں ان کو سیکورٹی ملنی چاہیے۔ سیکورٹی تواستحقاق اور ضرورت کے مطابق دی جاتی ہے، گالیوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اس ملک میں تو پاکستان کو گالیاں دینے والوں اور ان کی تقریر پر تالیاں بجانے والوں کو بھی سیکورٹی ملتی ہے۔ ان کو کیا استحقاق ہے۔ لیکن سیکورٹی ادارے ہی ان کے سرپرست ہیں تو کیا ان کی سیکورٹی واپس لی گئی، وہ تو اب سیکورٹی اداروں کو بھی نظر نہیں آتی عدالت عظمیٰ کہتی ہے کہ گرفتار کرکے لاؤ، اور سیکورٹی کے ذمے دار کہتے ہیں کہ وہ مل نہیں رہے۔ روز پریس کانفرنس اور جلسے ہوتے رہتے ہیں، عدالت عظمیٰ یا عالیہ اور ماتحت عدالتیں سب کے سرپرست اور باپ کی حیثیت رکھتی ہیں ان کے سربراہوں کی جانب سے سیاسی رہنماؤں کے بارے میں ایسے الفاظ جاری ہونا جن سے فریق ہونے کا تاثر ملے بڑا نقصان دہ ہے۔ اس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ فوجی اور اس کے حلقے سیاست دانوں کے خلاف، عدلیہ سیاست دانوں کے خلاف میڈیا سیاست دانوں کے خلاف، گویا اس ملک کے سب سے زیادہ خراب لوگ سیاست دان ہیں۔ خراب سیاست دانوں کی نشاندہی اور ان کے نام لینے کے بجائے سیاست دان کیوں کہاجاتا ہے۔ چیف جسٹس کہتے ہیں کہ قوم کا پیسہ سیاست دانوں کی سیکورٹی پر لٹانے نہیں دیں گے۔ جناب قوم کا پیسہ صرف سیاست دانوں کی سیکورٹی کے لیے نہیں لٹایا جاتا بلکہ سیکورٹی کے نام پر قوم کو غیر محفوظ کرکے اس کی دولت لوٹی جارہی ہے۔ ایک بڑا بلڈر بحریہ ٹاؤن کے نام پر عوام کی زمینیں ہڑپ کر گیا اس نے یہی تاثر دیا ہوا ہے کہ اس کے پیچھے سیکورٹی ادارے ہیں اور سیکورٹی اداروں نے بھی اس سے لا تعلقی ظاہر نہیں کی ہے۔ عدالت نے نوٹس تو لے لیا ہے لیکن اس کا فیصلہ کب ہوتا ہے اور عمل در آمد کب۔ کیا یہ بھی اصغر خان کیس کی طرح ان کی موت کے بعد فیصل ہوگا۔ بہر حال چیف صاحب قوم کا پیسہ بہت ساری جگہوں پر لٹایا جارہاہے۔ سوائے قوم کے یہ پیسہ ہر ایک پر لٹایا جارہاہے اور اس کا سبب آپ نے خود فرمادیا ہے کہ اﷲ اور قانون کی حاکمیت نہیں ہے۔ ایک بات مرحوم قاضی حسین احمد کہا کرتے تھے اور آج کل سینیٹر سراج الحق جو اب امیر جماعت اسلامی ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اس دن اسلامی جمہوریہ بنے گا جب صدر مملکت امامت کرے، وزیراعظم اقامت کہے، ججوں کے ہاتھوں میں انگریزکی کتاب کی جگہ قرآن پاک و احادیث ہوں اور وہ ان کی روشنی میں فیصلے کریں۔ چیف صاحب اﷲ اور قانون کی حاکمیت یہی ہوتی ہے۔ دستور کے ابتدایئے میں یہ لکھ دینا کافی نہیں کہ پاکستان میں کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بنے گا بالا تر قانون قرآن و سنت ہوں گے۔ حاکمیت اعلیٰ اﷲ کی ہوگی لیکن عدالت عظمیٰ کے کون سے جج نے اس امت مسلمہ کی اس عظیم دولت پاکستان کولٹنے سے بچانے کے لیے حکومتوں کو مجبور کیا کہ جس مقصد کے لیے ملک قائم کیا گیا ہے اس کا دستور جو کہتا ہے اس کے مطابق اس ملک کو چلایا جائے۔ ہماری عدالتوں نے توہین عدالت کی بنیاد پر وزرائے اعظم کو گھر تو بھیجا لیکن توہین رسالت اور توہین قرآن کی بنیاد پرکسی کو گھر نہیں بھیجا۔ میاں نواز شریف نا اہل قرار پائے تو پاناما اور اقامہ کے مسئلے پر سود کے حق میں پٹیشن دائر کرنے پر نہیں۔ ہماری عدلیہ گریڈ 20 کے منصب پر 19والے افسر کے تقرر پر سخت نوٹس لیتی ہے۔ متعلقہ کیڈر کا افسر نہ ہو تو اسی وقت برخواست کردیتی ہے۔ خواہ وہ فرد ادارے کو بہتر انداز سے چلاسکتا ہو۔ اسی طرح اب سیاست دانوں کی سیکورٹی کا نوٹس لینا، کرپشن کا نوٹس لینا، یہ سب ٹھیک ہے لیکن جناب اس ملک کے ساتھ سب سے بڑی کرپشن تو یہی ہوئی ہے کہ اس ملک میں ایک دن کے لیے بھی حاکمیت الٰہی قائم نہیں ہونے دی گئی۔ مریم اورنگزیب اور دوسرے سیاست دانوں اور ان کے بچوں سے سیکورٹی ضرور واپس لیجیے، عوام کو سیکورٹی ضرور دیجیے لیکن اب اس نکتے پر پہنچنے کے بعد کہ حاکمیت اﷲ اور قانون کی ہوگی اس کام کو کر ہی ڈالیں کم سے کم یہ ہوسکتا ہے کہ جو لوگ طاقتور ہیں وہ زیادہ سے زیادہ یہ کریں گے کہ سب کچھ لپیٹ دیں گے اور زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ عدالت عظمیٰ آئین کی پاسدار اور تشریح کرنے کی ذمے داری ادا کرتے ہوئے اس ملک میں حاکمیت اعلیٰ اﷲ کی، قرآن و سنت بالاترین قانون کے اصول کو نافذ کروانے کے لیے احکامات جاری کرے، چند ہفتوں کے لیے سارے مقدمات ایک طرف رکھ کر پوری عدالت عظمیٰ ملک کو درست راستے پر ڈال دے۔ پھر دیکھتے ہیں کوئی احسن اقبال کا بیٹا اور بلاول سیکورٹی کی 20 یا 30 گاڑیاں ساتھ لے کر کیسے چلتا ہے یہ ملک اﷲ نے انعام میں دیا۔ 27 رمضان کو دیا اسی کی حاکمیت کے لیے دیا گیا اس سال 27 رمضان کو الحکم ﷲ والملک ﷲ کے مصداق فیصلہ دے دیں۔