چبائے ہوئے لقمے!

402

غلطی کرنا غلطی نہیں بشریت ہے انسانی فطرت ہے۔ غلطی پر ڈٹ جانا، دیدہ دلیری کا مظاہرہ کرنا غلطی ہے۔ عزازیل خدا کا مقرب تھا مگر جب اس نے اپنی غلطی پر دیدہ دلیری کا مظاہرہ کیا تو ابلیس کہلایا۔ سیدنا آدمؑ نے اپنی غلطی پر ندامت کا اظہار کیا تو پیغمبری کا منصب پایا۔ ابن ابلیس اپنی غلطی پر دیدہ دلیری کا مظاہرہ کرتا ہے اور ابن آدم ندامت کا اظہار کرتا ہے مگر میاں نواز شریف جنہیں تین بار وزارت عظمیٰ کی سعادت نصیب ہوئی ہے، ممبئی حملوں سے متعلق بھارت کی ہم نوائی کرنا بشریت نہیں، مکافات عمل ہے۔ کہتے ہیں یہ بیان دلوایا گیا ہے، الطاف حسین سے بھی ایسا ہی دل آزار بیان دلوایا گیا تھا اور پھر اسے اقلیم سیاست سے بے دخل کرادیا گیا۔ میاں نواز شریف سے بھی ویسا ہی بیان دلوایا گیا ہے تا کہ ان کی بے دخلی میں کوئی مزاحم نہ ہو اور یہی ہورہا ہے۔ میاں نواز شریف کے حامی اور وفادار بھی عوام سے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ میاں نواز شریف کے بیانیے کا دفاع کیسے کریں؟۔ میاں نواز شریف کے بیانیے نے متوالوں کی مت ماردی ہے۔
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے جو کچھ الطاف حسین کے ساتھ کیا تھا قدرت کی طرف سے اس کا ردعمل تو آنا ہی تھا۔ الطاف حسین اتنے مقبول رہنما تھے کہ ان کے کارکن اور حامی ان کی ہر رائے زنی پر کسی زن مرید کی طرح جی! جی! کی صدائیں بلند کیا کرتے تھے مگر جب انہوں نے پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگایا تو ان کے حامیوں اور وفاداروں کے سر ندامت سے جھک گئے۔ اہل پاکستان سب کچھ برداشت کرسکتے ہیں مگر پاکستان اور اپنی فوج سے متعلق ہتک آمیز بات برداشت نہیں کرسکتے، کیوں کہ یہ ان کے وجود سے انکار کرنے کے مترادف ہے۔ ان کی تذلیل کے مترادف ہے۔
باقی صفحہ9پر
ناصر حسنی
الطاف حسین کا بیانیہ ایک ایسا ہی واقعہ تھا مگر سیاست دانوں اور دانش وروں نے اس سے کوئی سبق نہ سیکھا، کوئی عبرت حاصل نہ کی۔ میاں نواز شریف جو تین بار وزارت عظمیٰ سے لطف اندوز ہوچکے تھے ان پر لازم تھا کہ وہ عبرت حاصل کرتے لیکن میاں صاحب جو تین بار وزارت عظمیٰ سے مستفید ہوچکے کوئی عبرت حاصل کی نہ کوئی سبق سیکھا۔ انجام کار تیرا تین ہوگئے۔ لوگ حیران ہیں کہ میاں نواز شریف کو یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ ہمارے شدت پسندوں نے ممبئی جا کر 150 افراد ہلاک کردیے۔ یہ ٹھیک ہے، درست ہے کہ ان کے بیانیے سے قبل بھی اسی طرح کے بیانات پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی گود میں اچھلتے اور چمکتے رہے ہیں مگر میاں نواز شریف جنہیں ایک نفیس طبع سمجھا جاتا ہے اسے بھلا چبائے ہوئے لقمے چبانے کی کیا ضرورت تھی؟۔ ایک جرمن صحافی بڑی تفصیل اور وضاحت کے ساتھ اس واقعہ کا ذمے دار بھارت کو قرار دے چکا ہے، بھارت کے نیتا اور دانش ور تو اس کو نہ جھٹلا سکے مگر میاں نواز شریف نے نہ صرف اس جرمن صحافی کے سچ کو جھٹلادیا بلکہ اس انسانیت سوز واقعہ کی ذمے داری بھی قبول کرلی۔ سوال یہ ہے کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟؟ اس کا مقصد کیا ہے؟ اور کیا اس کے ثمرات ان کی جھولی میں گرسکیں گے مگر یہ بات یقینی ہے کہ قوم اس کے مضمرات سے محفوظ نہیں رہے گی۔