آخری حصہ
شاہنواز فاروقی
’’میں بلامبالغہ سچے دل سے کہتا ہوں کہ تمام ہندوستانیوں کو اعلیٰ سے لے کر ادنیٰ تک، امیر سے لے کر غریب تک، سودا گر سے لے کر اہل حرفہ تک، عالم فاضل سے لے کر جاہل تک، انگریزوں کی تعلیم و تربیت اور شائستگی کے مقابلے پر درحقیقت ایسی ہی نسبت ہے جیسے ایک نہایت خوبصورت آدمی کے سامنے نہایت میلے کچیلے وحشی جانور کی‘‘۔
(مسافران لندن۔ ازسرسید۔ صفحہ188)
اقبال نے کہا ہے
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی زیرہ کاری ہے
مگر یورپ کے سفر سے سرسید کی نظر اتنی خیرہ ہوئی کہ انہیں اپنے ملک کے عوام اور تاجر ہی نہیں عالم فاضل بھی ’’وحشی اور جانور‘‘ نظر آنے لگے۔
سرسید نے ایک جگہ تحریر فرمایا۔
’’تمام خوبیاں دینی و دنیاوی جو انسان میں ہونی چاہئیں وہ خدا تعالیٰ نے یورپ کو اور اس میں بالتخصیص انگلینڈ کو مرحمت فرمائی ہیں‘‘۔
(مسافران لندن۔ ازسرسید۔ صفحہ 190)
یورپ کی ’’دینی خوبیوں‘‘ کا قصہ یہ ہے کہ یورپ نے اپنے دین پر تھوک کر اسے مسترد کردیا ہے۔ برطانیہ کے ممتاز ہفت روزے ’’دی اکنامسٹ‘‘ کے مطابق مغربی یورپ کے 75 اور مشرقی یورپ کے 80 فی صد لوگ کسی خدا اور کسی مذہب پر ایمان نہیں رکھتے۔ یہاں تک کہ کیتھولک فرقے کی سب سے بڑی روحانی شخصیت پوپ فرانسس نے روحانی اعتبار سے یورپ کی نئی نسلوں کو ’’گمشدہ نسلیں‘‘ قرار دے دیا ہے۔ جہاں تک یورپ کی دنیاوی خوبیوں کا تعلق ہے تو کوئی سرسید کو عالم بالا میں بتائے کہ یورپی اقوام نے جو معاشی اور مادی ترقی ڈیڑھ سو سال میں کی تھی وہ ترقی چین نے صرف 40 سال میں کرکے دکھادی ہے۔ کسی مسلمان ملک کو بھی اچھی قیادت میسر آجاتی تو وہ بھی یہ ’’کارنامہ‘‘ انجام دے سکتا تھا۔
سرسید مغرب کے حوالے سے جس احساس کمتری میں مبتلا تھے وہی احساس کمتری انہوں نے اپنی اولاد میں بھی پیدا کیا۔ اس کا بیان خود سرسید کی زبانی سنیے۔ لکھتے ہیں۔
’’ایک دن میں اور حامد اور محمود (لندن میں) انڈیا آفس لائبریری گئے۔ محمود نے ایک کتاب کو دیکھنا شروع کیا۔ اتنے میں ایک نوجوان انگریز، شاید کوئی سول سروس پاس کیے ہوئے تھا وہاں آن کھڑا ہوا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے محمود سے پوچھا کہ کیا تم ہندستانی ہو؟ محمود نے بلا خیال کہا Yes (ہاں) مگر یہ کہتے ہی اسے ایسی شرمندگی ہوئی کہ اس کا رنگ متغیر ہوگیا اور اس نے کہا۔
I am of a boreign nation, and not an Indian
یعنی میں ہندوستان کی قوم کا آدمی نہیں ہوں بلکہ پردیسی قوم کا ہندوستان میں آیا ہوں۔ پس خیال کرو جب تک یہ کلنک کا ٹیکا ہندوستان اپنے منہ سے نہ چھٹا دیں گے اس وقت تک کبھی ان کی عزت اور قدر کسی تربیت یافتہ قوم کی آنکھ میں نہ ہوگی‘‘۔
(مسافران لندن۔ سرسید۔ صفحہ 196)
بدقسمتی سے سرسید نے یہی احساس کمتری علی گڑھ کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں میں پیدا کیا اور اسے عام کیا۔
سرسید جنت کے قائل نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنت کا کوئی خارجی وجود نہیں بلکہ انسان خوشی محسوس کرے گا تو وہ جنت میں ہوگا اور تکلیف محسوس کرے گا تو جہنم میں ہوگا۔ مگر لندن کو دیکھ کر وہ جنت کے ہی نہیں حوروں کے بھی قائل ہوگئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لندن سرسید کو جنت لگا اور لندن کی ’’حسینائیں‘‘ انہیں ’’حوروں‘‘ جیسی محسوس ہوئیں۔ انہوں نے لکھا۔
’’عاقل و عیاشی آدمی کے لیے جو خوشی اور نعمت یہاں مقصود رہے خدا معلوم بہشت میں بھی ہوگی یا نہیں۔ میرے ایک بڑے معزز دوست نے ایک بڑے جلسے میں جہاں تکلفانہ پوشاک پہنے ہوئے کئی سو مرد و میم و لیڈی نہایت خوبصورت و خوش کلام اور قابل جمع تھیں، پوچھا کہ کہو لندن بہشت ہے یا نہیں اور حوروں کا ہونا سچ ہے یا نہیں؟۔‘‘
چوں کہ سرسید نے اپنے دوست کے جواب کا نفی میں جواب نہیں دیا اس لیے یہ قیاس کرنا غلط نہ ہوگا کہ سرسید لندن سے جنت اور لندن کی حسیناؤں سے حوروں کے قائل ہوگئے تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ لندن سرسید کو ’’عیاشی کا مرکز‘‘ نظر آیا اور انہوں نے اس کا نام جنت کے ساتھ لیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ سرسید جنت کو بھی لندن کی طرح عیاشی کا مرکز سمجھتے تھے اور ان کی نظر میں سارے جنتی ’’عیاش لوگ‘‘ ہوں گے۔ چوں کہ جنت خدا کی عطا ہوگی اس لیے سرسید نے معاذاللہ خدا کو عیاشی کے مرکز کا ’’خالق‘‘ باور کیا ہوا تھا۔
پڑھتا جا شرماتا جا