تعلیم و کردار کا مینارہ نور ’’پروفیسر فضل حق میر‘‘

226

عبدالمتین اخونزادہ
اتوار کی سہ پہر، کوئٹہ شہر اللہ کی رحمت بارش سے جھل تھل ہو رہا تھا کوئٹہ پریس کلب کی خوب صورت عمارت میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ باہر بارش اور اندر بجلی غائب اور مکمل خاموشی، آج ممتاز دانشور اور عمل و کردار کے مینارہ نور مرحوم پروفیسر فضل حق میر کی یاد میں تعزیتی ریفرنس غزالی ویلفیئر سوسائٹی کے تحت منعقد کرنا تھیجس کے روح رواں ممتاز سماجی کارکن اور سیاسی رہنما حاجی عبدالقیوم کاکڑ تھے۔ تعمیر نو کالج کے نئے پرنسپل اور مرحوم پروفیسر فضل حق میر کے ساتھ 41 سالہ تعلیمی سفر کرنے والے پروفیسر عابد مقصود تشریف لاتے ہیں اور کیا خوب فرماتے ہیں کہ بارش، رب کریم! کی رحمت بے پایاں ہے بارش ہو بقیہ کام ہوتے رہتے ہیں۔ محمد آصف پرنسپل تعمیر نو ہائی اسکول، سیاسی رہنما میر غلام نبی مری وفد کے ہمراہ اور ممتاز قراء حضرات قاری محمد ہاشم برشوری اور قاری محمد طاہر بھی حاضر ہیں۔ صوبے کے تمام باسیوں کی بلا تفریق خدمت کرنے والے ڈاکٹر، شہید باز محمد کاکڑ ایڈوکیٹ فاؤنڈیشن کے چیئرمین ڈاکٹر لعل خان کاکڑ، اسلامی جمعیت طلبہ و جمعیت طلبہ عربیہ کے نمائندہ وفود، ملک عبدالرشید کاکڑ، کچلاک ویلفیئر سوسائٹی کے صدر اور ممتاز وکیل ملک امین اللہ خان کاکڑ ایڈوکیٹ، محفل کو رونق بخشتے ہیں تاخیر سے ہی صحیح مگر مرحوم پروفیسر فضل حق میر کی یاد میں بھرپور و نمائندہ مجلس سجتی ہے۔ مقررین پروفیسر فضل حق میر مرحوم کی نصف صدی کی یادیں، کاوشیں اور محنتوں و مشکلات کا ذکر کرتے رہے۔
یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں
میں نے صدارتی خطاب میں عرض کیا کہ: پروفیسر فضل حق میر مرحوم نے اپنے آپ کو تعلیم و کردار کی خوشبو پھیلانے کے لیے وقف کرکے شہر کوئٹہ اور صوبے کے عوام پر عظیم احسان کیا۔ اگر فضل حق میر کی طرح (100) ایک سو افراد، ہمارے معاشرے میں پیدا ہوتے تو آج ہماری تعلیمی و معاشرتی ترقی بہت آگے ہوتی۔ ہمیں ماضی کے گہرے تجزیے کے ساتھ مستقبل کے چیلنجز و امکانات پیش نظر رکھنے ہوں گے آج گلوبل چیلنجز کے باعث کردار و افکار اور تہذیب و تمدن کی ترقی کے ساتھ مادیت و معیشت بھی اہم و فیصلہ کن اثر رکھتا ہے۔ تعمیر نو کے اداروں کو ماضی کی طرح لیڈنگ پوزیشن سنبھالتے ہوئے آئندہ تیس تا پچیس سالہ وژن و منصوبہ تشکیل دینا چاہیے۔
تعمیر نو کالج کے پرنسپل پروفیسر عابد مقصود نے داستان کی اندازیں مرحوم پروفیسر فضل حق میر کی یادیں تازہ کرتے ہوئے اسی عزم کا اظہار کیا کہ تعمیر نو ماضی کے پچاس سال کی طرح مستقبل میں بھی تعلیم و تزکیہ اور ہنر و Skill کو پیش نظر رکھ کر بھرپور کردار ادا کرے گی پروفیسر فضل حق میر نے علم و کردار کا جو حسین و بامقصد پودا لگایا ہے اسے تناور درخت اور ثمر بار بنانے کے لیے تعمیر نو کی پوری ٹیم یکسو و کمربستہ ہیں۔
تعمیر نو ہائی اسکول کے پرنسپل اور بزرگ شخصیت محمد آصف نے کہا کہ تعمیر نو کے ادارے بنانے میں بے پناہ اخلاص اور ان تھک محنت شامل ہیں۔ ایک وقت تھا کہ تعمیر نو کے اثاثے میں صرف ایک موٹر سائیکل ہوا کرتا تھا جس پر میں اور مرحوم فضل حق میر، دفاتر سے گشت لگاتے تھے اور کبھی بھی تنخواہ مخیر حضرات سے قرض لے کر ادا کرتے تھے۔ فضل حق میر کے عزم اور مسلسل جدوجہد نے اِن اداروں کو شہریوں اور نسل نو کے لیے تناور اور ثمر بار بنایا۔ شہید باز محمد کاکڑ فاؤنڈیشن کے چیئرمین و ممتاز سرجن ڈاکٹر لعل کان کاکڑ نے کہا کہ تعمیر نو، شہر کوئٹہ میں اچھی تعلیم اور کردار کا نام و علامت ہیں پروفیسر فضل حق میر کے جنازے میں نوجوانوں اور تمام طبقات کی بھرپور شرکت اُن کے لازوال خدمات کا اعتراف اور خراج عقیدت تھا ہم سب کی ذمے داری یہی کہ تعلیم و کردار کے ابلاغ و کوالٹی لانے میں تعمیر نو جیسے اداروں اور پروفیسر فضل حق میر جیسے شخصیات کو ترجیح دیں۔
بی این پی کے رہنما میر غلام نبی مری نے کہا کہ قوموں کی بقاء و ترقی تعلیم سے وابستہ ہے پروفیسر فضل حق میر نے بلا تفریق رنگ و نسل خدمت کرکے اعلیٰ امتیاز حاصل کی ہیں۔ وہ سب کے شکریے و محبت کے حق دار ہیں اُن کے اعلیٰ خدمات کا اعتراف ہماری سماجی و قبائلی ذمے داری ہے۔
ملک امین اللہ کاکڑ ایڈوکیٹ نے کہا کہ تعلیم و تدریس مقدس پیشہ ہے وہ افراد معزز اور باوقار بنتے ہیں جو اس شعبے کو انسانوں کی خدمت اور کردار کی تشکیل کے لیے اپناتے ہیں مرحوم پروفیسر فضل حق میر اس شہر اور علاقے کے محسن ہیں اُن کی لازوال خدمات اور بھرپور محنت تادیر یاد رکھی جائیں گی۔ ملک عبدالرشید کاکڑ نے کہا کہ سرکاری تعلیمی ادارے ناکامی کے دہانے پر ہیں پرائیویٹ تعلیمی ادارے مثبت کردار اور خواندگی کا ذریعہ ہیں تعمیر نو کے ادارے مڈل کلاس طبقے کے لیے غنیمت ثابت ہوئے۔ طلبہ و نوجوانوں کے نمائندوں محمد فہد مندوخیل، مولانا حامد اللہ شاہوانی نے بھی اظہار خیال کیا اور ننھے طلبہ وقاص احمد اور ریان احمد بھی شریک محفل رہے۔ میزبان مجلس حاجی عبدالقیوم کاکڑ نے تمام شرکاء کا خصوصی شکریہ ادا کیا کہ وہ سرد موسم اور رم جھم بارش میں تشریف لائے اور گلستان روڈ کو مرحوم پروفیسر فضل حق میر کے نام منسوب کرنے کا قرارداد پیش کی جسے شرکاء مجلس نے متفقہ طور پر منظور کیا۔