محمد سمیع
قوم نے یوم تکبیر منا لیا، بہت اچھا کیا۔ منانا بھی چاہیے تھا۔ یہ اس کامیابی کی یاد گار ہے جس کے نتیجے میں آج قوم مطمئن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا بندوبست اپنے فضل و کرم سے فرمادیا ہے جس کے نتیجے میں اسے دشمن کے شب خون سے تحفظ مل گیا۔ شب خون سے ذہن 1965 کی طرف منتقل ہوا جب کہ ہمارے ازلی دشمن نے ہم پر شب خون مارنے کی جسارت کی تھی اس زعم کے ساتھ کہ اس کی فوجیں لاہور کے جیم خانہ میں جشن فتح منائے گی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا تھا۔ اس جنگ میں فوج کے جوانوں نے تاریخ رقم کی۔ اپنی جانیں قربان کرکے وطن کو بچا لیا۔ آج بھی ہماری افواج دشمنوں سے نبرد آزما ہے اس فرق کے ساتھ کہ اس وقت اسے بیرونی دشمن سے دو دو ہاتھ کرنے کا موقع تھا اور آج وہ بیک وقت اپنے ہی وطن میں بیرونی دشمنوں سے بھی پنجہ آزمائی کرنی پڑ رہی ہے اور اندرونی دشمنوں سے بھی۔ ہم نے اللہ کی مدد سے معجزانہ طور پر اپنے آپ کو ایک ایٹمی قوت بنالیا ہے۔ اس طرح ہم نے اللہ کے سورۂ انفا ل کی آیت 60 میں وارد اس فرمان پر عمل کرکے دکھادیا جس میں ارشاد ہوا ہے کہ: ’’اور تم لوگ جہاں تک تمہارا بس چلے زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے سے ان کے مقابلے کے لیے مہیا کررکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعداء کو خوف زدہ کردو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔‘‘ اللہ کے کلام کی حقانیت کتنی واضح ہے کہ نہ صرف ہمارا ازلی دشمن سمیت اسرائیل اور امریکا کس قدر ہماری ایٹمی قوت سے خوفزدہ ہے اور ان کا بس نہیں چلتا کہ کسی طرح ہمیں ہماری اس قوت سے محروم کردے۔ اللہ ایسے ہی اسلام دشمنوں کے دلوں پر مسلمانوں کا رعب طاری کردیتا ہے جس کا ذکر بارہا قرآن کریم میں آیا ہے۔ اپنے خوف کو چھپانے کے لیے یہ سب یہ راگ الاپتے رہتے ہیں کہ کہیں
یہ ایٹمی قوت دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگ جائے۔ اس طرح عالمی امن کو خطرہ لاحق ہوجائے گا حالاں کہ عالمی امن کو کبھی اتنا خطرہ لاحق نہیں ہوا جتنا امریکا کے واحد سپر پاور بننے کے بعد ہوا ہے۔ ہم نے اللہ کے ایک حکم پر تو عمل درآمد کردیا اور یہ بھی اسی کی مدد سے ممکن ہوا۔ اس پر قوم جتنا بھی ناز کرے کم ہے۔ لیکن کیا یوم تکبیر منالینا ہی قوم کے لیے کافی ہے؟ ہم نے ایٹمی دھماکے کے دن کو یوم تکبیر کا نام تو دے دیا لیکن کیا ہمیں معلوم نہیں کہ تکبیر کا تقاضا کیا ہے۔ اوائل نبوت میں نازل ہونے والی وحی میں سے ایک وہ بھی ہے جو سورۂ مدثر میں وارد ہوئی ہے جہاں نبی کریمؐ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ: ’’اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے! اٹھو اور خبردار کرو۔ اور اپنے ربّ کی بڑائی کا اعلان کرو۔‘‘ یہ اعلان واضح ہوکر سورۂ بنی اسرائیل کے آخر میں آیا جہاں فرمایا گیا کہ: ’’اور کہو تعریف ہے اس اللہ کے لیے جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا، نہ کوئی بادشاہی میں اس کا شریک ہے اور نہ وہ عاجز ہے کہ کوئی اس کا پیشتیبان ہو۔ اس کی بڑائی بیان کرو کمال درجے کی بڑائی۔‘‘ ہم نے اس کے حکم کے مطابق اپنے دستور میں قرارداد مقاصد کو شامل کرلیا جس میں واضح طور پریہ اقرار کیا گیا ہے کہ حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے لیکن ہمارے کچھ دانشور جنہیں ایک عرصے سے یہ قرارداد کھٹک رہی ہے اب عدالت عالیہ سے یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ اٹھارویں اور اکیسویں ترمیم کے سلسلے میں جاری مقدمے میں کوئی ایسا ہی فیصلہ دے دے گی۔ کیوں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عدالت جمہوریت کو دستور کا بنیادی ڈھانچہ قرار دینے جارہی ہے حالاں کہ وطن عزیز عام معنوں میں جمہوری نہیں بلکہ ایک اسلامی جمہوری ملک ہے جس کے نمائندگان کو دستوری طور پر یہ اختیار نہیں کہ وہ کوئی قانون سازی قرآن و سنت کے خلاف کرسکیں۔ مذکورہ بالا آیت کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ وہ عاجز نہیں کہ کوئی اس کا پشتیبان ہو۔ یہ تو ہم ہیں جو اللہ کو چھوڑکر امریکا اور دیگر مغربی قوتوں کو اپنا پشتیبان تصور کرتے ہیں اور ملک میں در آنے والی تمام بڑائیوں کی جڑ یہی ہے۔ اگر ہم تحریک پاکستان کے دوران کیے گئے اس وعدے کو پورا کرنے کے لیے جس کا ذکر قائد اعظم کے اس بیان میں ہے کہ ہم ایک آزاد خطۂ زمین اس لیے حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ وہاں اسلام کے اصول حریت واخوت و مساوات پر مبنی ایک ایسی ریاست قائم کرسکیں جو دنیا کے سامنے نمونہ بن سکے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آج وطن عزیز دنیا والوں کے لیے ایک اسلامی ریاست کا نمونہ بن سکا ہے۔ ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس یہاں ہی نہیں مشرق وسطیٰ میں بھی ایسی تحریکیں موجود ہیں جو دین کے ایسے عقائد پر عمل پیرا لوگوں کے جو ان کے عقائد کے برعکس ہوں، گلے کاٹ رہی ہیں اور وہ کچھ ہورہا ہے جو اللہ کی نمائندگی کرنے والی امت کے فرائض کے برعکس ہیں۔ یہی تو وجہ ہے کہ امت مسلمہ عالمی سطح پر ذلت و خواری میں مبتلا ہے اور اغیار سمیت اپنوں کے ظلم ودرندگی کا شکار ہے۔ عالمی امن کے قیام کی ایک ہی صورت ہے کہ یہاں اللہ کی کبریائی کو بالفعل قائم کیا جائے۔ اور ایسا صرف اسی صورت میں ممکن ہے اگر دنیا کے کسی مسلم مملکت میں وہ نظام قائم ہو جو دنیا کو امن کی ضمانت فراہم کرسکے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ کسی عرب ملک میں ہوتا کیوں کہ قرآن عرب کی سرزمین میں ان کی اپنی زبان میں نازل ہوا لیکن بظاہر احوال ایسا ہوتا نظر نہیں ہوتا۔ پاکستان وہ واحد مملکت ہے جو قائم ہی اسلام کے نام پر ہوئی اور جس کے دستور میں قرارداد مقاصد کی صورت میں یہ اقرار موجود ہے کہ حاکم مطلق صرف اللہ کی ذات ہے۔ جو لوگ اس قرارداد کو دستور سے خارج کرنے کا سوچ رہے ہیں وہ شدید گمراہی میں مبتلا ہیں۔ ان شاء اللہ ان کا یہ خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔ وہ دن ان شاء اللہ ضرور آئے گا جب یہاں اسلام کا نظام عدل اجتماعی قائم ہوگا۔ جس دن ایسا ہوا، ہم یوم تکبیر منانے کا دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہوں گے۔ ورنہ شدید اندیشہ ہے کہ ہمارے دشمنوں کا وہ منصوبہ پورا ہوجائے جس کے ذریعہ وہ اس مملکت کے مزید حصے بخرے کرکے اسے مشرق وسطیٰ کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کرنے کے عزائم رکھتے ہیں۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہمارے دل اللہ کی خشیت سے کانپ اٹھیں اور ہم یہاں دین حق کے قیام کے لیے تن من دھن سمیت اپنا سب کچھ قربان کرنے کا عزم مصمم کرلیں؟ اللہ کرے ایسا ہی ہو ورنہ