حفیظ خٹک
۔28مئی 1998کا دن، وہ دن کہ جب پاکستان نے ایٹمی دھماکا کرکے بھارت سمیت پوری دنیا کو بتادیا کہ ہم کسی سے کم نہیں۔ اس دن سے کئی روز قبل بھارت نے پوکھران میں ایٹمی دھماکا کرکے دنیا کی چھٹی ایٹمی قوت کا اعزاز حاصل کرنے کے ساتھ پاکستان کو بھی یہ باآور کرانے کی کوشش کی کہ اکھنڈ بھارت کا، بھارتی سپنا جلد پوراکریں گے اور اس خواب کو پورا کرنے میں یہ دھماکا بہت مفید ہوگا۔ وہ چند روز پاکستانیوں سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں نے کس طرح گزارے ہوں گے اس وقت ان کے کیا جذبات ہوں گے ان کو سمجھنے کے لیے احساسات ہی کافی ہیں۔ اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان، لاکھوں قربانیوں کے بعد معرض وجود میں آنے والے پاکستان اور اپنا سب کچھ چھوڑ کر مہاجروں کے پاکستان کا اک نام اک مقام تو دنیا میں اس وقت بن ہی گیا تھا کہ جب عالمی قوتوں نے یہ دیکھا کہ کس طرح بغیر جنگ کے نیا ملک بن گیا۔ دو قومی نظریے پر پاکستان بن گیا۔ ہاں صرف وہی لوگ ہی پاکستان کے ایٹمی قوت بن جانے پر اس کی اہمیت کو سمجھ سکتے ہیں۔
28مئی کو بھارتی دھماکے سے کئی گنا بڑے چاغی کے دھماکوں نے بھارتیوں کی نیندیں اڑادیں۔ انہیں اکھنڈ بھارت کا سپنا بھول گیا اور ان کی لبوں پہ اس وقت صرف رام رام کے ہی راگ الاپے جاتے رہے تھے۔ پاکستان دنیا کی ساتویں اور اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی قوت بن گیا تھا اور اس کے بعد سے آج تلک دشمنان وطن کو اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ وہ سامنے آکر نہیں پس پشت اور اندرون خانہ ہی اپنی سازشوں کو دوام بحش سکتے ہیں۔ تب سے اب تلک بھارت اور اس کے ساتھ پاکستان کے تمام دشمن ممالک اک صف میں کھڑے ہوکر کبھی تہذیب کے ذریعے تو کبھی موسیقی کے ذریعے، کبھی اپنی ننگ دھڑنگ ثقافت کے ذریعے تو کبھی اپنی نوعیت کے کھیلوں کے ذریعے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ لیکن الحمدللہ پاکستان کا ہر جوان، ہر ایک پاکستانی اس وطن پہ جان وار کرنے کو تیار ہے اور یہ وہ جذبہ ہے کہ جس کے لیے کوئی لفظ نہیں۔
ایٹمی قوت بننے کے بعد اس دن کا نام رکھنے کی باتیں ہوئیں، اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے قوم سے کہا کہ وہ جو نام مناسب سمجھتے ہیں وہ انہیں لکھ بھیجیں، جس کے بعد لاکھوں نام اس کی دہلیز پر پہنچے اور ان ناموں میں سے اک نام یوم تکبیر کو منتخب کیا گیا۔ وہ نام شہر قائد کے اک نوجوان مجتبیٰ رفیق کا تھا کہ جس نے اس وقت یوم تکبیر لکھ کر بھیجا اور وہ نام منتخب ہوگیا۔ حکومت نے انہیں تعریفی دستاویز دیں اور ان کی اس کاوش کو بھی سراہا۔
لیکن حکومت کی اس جماعت کو کہ جو آج بھی اس ملک پر حکومت کررہی ہے اس نے دوبارہ پلٹ کر نہیں دیکھا کہ اس یوم تکبیر نام کے روح رواں کو، کہ وہ کس حال میں ہے اور کس طرح ہے؟ بالکل اس طرح جس طرح انہوں نے ایٹمی قوت کا درجہ دلانے والے پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر قدیر کو نہیں دیکھا اور نہ ہی نوازا۔ وہ نوجوان 20 برس بعد بھی یہ کہتے کہتے تھک تو نہیں گیا اور نہ وہ تکھنے والا ہے کہ وہ ایٹمی قوت بننے کے دن کو نام دینے والا باعزت شہری ہے۔ وہ یہ کہتا تھا، کہتا ہے اور کہتا رہے گا۔ اسے نوازا جانا چاہیے، یہ خیال ایک فرد کا نہیں بلکہ پوری قوم کا ہے۔ وزیر اعظم و وزرائے کرام کا تو یہ عالم ہے کہ وہ اپنوں کو ظاہراً و درپردہ نوازتے چلے جاتے ہیں اور اس بات کا احساس تک نہیں کرتے کہ وہ اس نوازش کے حق دار بھی یا نہیں لیکن یوم تکبیر کا نام رکھنے والے کو کسی نے بھی نہیں نوازا ہے۔ نہ حکومت نہ، نہ سیاسی و مذہبی جماعتوں نے اور نہ ہی کسی نامی گرامی فورم نے۔ غرض یہ حق ہے اس کا اور یہ حق اسے ملنا چاہیے۔
اس کے ساتھ ہی آج ایک پرانی تصویر اور اس پر لکھی تحریر دل کو اداس کر رہی ہے اور وہ جملہ کچھ اس طرح سے تھا کہ ایٹمی قوت پاکستان، قوم کی بیٹی پس زندان!!۔ ہاں قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی جو برسوں سے ناکردہ جرائم کے باعث امریکا میں قید تنہائی گزار رہی رہیں، اس کو بھی آج تک اس ایٹمی قوت پاکستان نے نہیں پوچھا اور نہ ہی اسے باعزت رہائی دلانے کی کوئی کاوش کی ہے۔ حالاں کہ جب ایٹمی بم کا دھماکا کیا گیا تو اس وقت بھی وزیر اعظم وہی تھا جو گزشتہ برس تھا لیکن اس نے جس طرح ایٹمی قوت کے بن جانے پر نام رکھنے والے کو نہیں نوازا اسی طرح اس نے قوم کی بیٹی کے اہل خانہ سے وعدہ تو کیا لیکن اس کو پورا تاحال کرنا تو درکنار اس کا ذکر تک چھوڑ دیا۔
دنیا میں کسی بھی ایٹمی قوت کی روش ایسی نہیں جیسی آج ہماری ہے۔ کسی بھی ملک کی امریکا اس طرح سے عزت نہیں کرتا جس طرح وہ ہمارے حکمرانوں اور عوام کی کرتا ہے۔ امریکا جو خود کو سپر پاور کہتا ہے آج وہ بدمعاشی کے زعم میں مبتلا ہوچکا ہے ان کا صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہی نہیں اس کے عوام کا بھی یہی حال ہے۔ گزشتہ ماہ پاکستانی بیٹی سبیکا شیخ کو جس انداز میں شہید کیا گیا وہ امریکی ذہن وسوچ کہ غماز ہے۔ اس پر وطن عزیز کی حکومت کا رویہ و انداز بھی قابل توجہ ہونے کے ساتھ قابل تنقید بھی ہے۔ امریکی کرنل جوزف پاکستانی قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے، پاکستانی کو شہید کرتا ہے اور اس کے بعد باعزت انداز میں واپس چلا جاتا ہے۔ اس سے پہلے ریمنڈڈیوس تین پاکستانیوں کو شہید کرتا ہے اور وہ بھی چلا جاتا ہے اور دوسری جانب امریکا قوم کی بیٹی کو برسوں سے قید ناحق رکھتی ہے لیکن اس کے لیے کوئی بات کرنے والا نہیں ہوتا ہے۔ آخر کیوں؟ اب جب سبیکا شیخ شہید کردی جاتی ہے اس پر بھی ہماری حکومت کا رویہ نامناسب ہے۔ آج قوم تین پاکستانیوں کے بعد ایک پاکستانی اور سبیکا شیخ سمیت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لیے اداس ہے، ان کے لیے وہ انصاف چاہتی ہے لیکن ایٹمی قوت پاکستان کا وزیراعظم اور اس کا کردار اس بات کا احساس نہیں کرتا ہے۔ چند روز قبل قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وفات کی خبریں بھی جس منظم منصوبہ بندی کے سے انداز میں پھیلائی گئیں وہ بھی سب کے سامنے عیاں ہے لیکن اس کے باوجود حکومت کا رویہ و کردار سب کے سامنے عیاں ہے۔
ہاں ہم ایٹمی قوت ہیں اور اس پر ہمیں فخر ہے۔ آج دنیا بھر کی نظریں ہمارے اوپر ہیں اور وہ وقت دور نہیں کہ جب یہ ایٹمی قوت سپر پاور بنے گی تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ اکابرین حکومت حق دار کو اس کا حق دیں۔ قوم کی بیٹی کی باعزت واپسی کے لیے قدم اٹھائیں اور اسی طرح یوم تکبیر نام رکھنے والے کو بھی نوازیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایٹمی قوت کرنے والے کو بھی نوازیں۔