رویت ہلال کا مسئلہ: اور چند غور طلب پہلو

491

محمد اکرم ہزاروی
خدا کا شکر ہے کہ اس بار مجموعی طور پر عوام نے کراچی سے خیبر تک ایک ساتھ روزہ رکھا اور عید بھی ایک ہی ہوگی پہلے یہ ہوتا تھا کہ خیبر پختون خوا کے بعض علاقوں اور فاٹا کے لوگ سعودی عرب کے ساتھ روزہ اور عید مناتے تھے بقیہ پاکستان رویت ہلال کمیٹی کے اعلان کردہ فیصلے پر چلتے تھے آسان لفظوں میں اس کو آپ یوں سمجھیں کہ 80فی صد عوام حکومت کی منتخب کردہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کے مطابق روزہ رکھتے تھے اور 20فی صد عوام پشاور کی مسجد ’’قاسم خان‘‘ کے زیر انتظام چلنے والی نجی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلوں پر روزہ رکھتے تھے۔ مسجد قاسم خان کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی اس کمیٹی کے سربراہ ہیں ان کا موقف ہے کہ: ’’ہم صدیوں سے اپنے طور پر رویت ہلال کا اعلان کرتے آرہے ہیں مرکزی رویت ہلال کمیٹی فاٹا اور کے پی کے کے دور دراز کے علاقوں سے ہماری موصولہ شہادتوں کو نہیں مانتی‘‘ (یاد رہے مرکزی رویت ہلال کمیٹی میں ہر مکتبہ فکر کے علماء موجود ہیں) اس بار اتفاق سے ماسوائے ترکی کے پوری امّت مسلمہ میں ایک ساتھ رمضان شروع ہوا اور عید بھی ایک دن ہی ہوگی۔
رویت ہلال کے پہلے مسئلے کو سمجھتے ہیں اس کے بعد نکتہ کی طرف آئیں گے ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے: ’’چاند دیکھ کر روزے رکھو اور چاند دیکھ کر عید مناؤ‘‘ مسئلہ تو بالکل واضع ہے اب اگر چاند 29تاریخ کا ہے یا پورے 30دنوں کا یہ چاند کو دیکھ کر ہی تعین کیا جائے گا اب اتنی بڑی فقہی و شرعی اور قانونی ذمے داری پر براجمان شخص کیسے فرض سے پہلو تہی کا مرتکب ہو سکتا ہے؟ فلکیات الگ سے ایک پورا شعبہ ہے جس میں موسم بھی دخل انداز ہوتا ہے اب یہ کہنا کہ جی اس اہم ذمے داری سے غفلت برتی جارہی ہے یہ عقل میں نہ آنے والی بات ہے۔ آپ دیکھیں! پاکستان کے سرکردہ تمام ممتاز دینی مدارس دارالعلوم کراچی، جامعہ اشرفیہ، جامعۃ الرشید، جامعہ فاروقیہ، جماعت اسلامی کا مرکز منصورہ اور جمعیت علماء اسلام (ف) بشمول تمام گروپس مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے مطابق روزہ رکھتے اور ایک ساتھ عید مناتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ پشاور میں اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کھڑی کی جاتی ہے پاکستانی عوام کو تقسیم کرنے کی کوشش ہر بار کی جاتی ہے عید الضحیٰ میں بھی خیبر پختون خوا کے علاقوں میں دودو اور تین تین عیدیں ہوجاتی ہیں اب کی بار اگر یہ مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل نہ ہوا تو قوم پھر مقامی کمیٹیوں کے رحم وکرم پر ہوگی۔ اہلسنت والجماعت کے قائد مولانا احمد لدھیانوی، رائیونڈ کے تمام اکابر، وفاق المدارس العربیہ کی مرکزی قیادت کراچی، لاہور، فیصل آباد، سکھر، حیدرآباد اور ملتان کے ہزاروں مدارس کے شیخ الحدیث، مدرسین اور طلبہ، اہل حدیث اور بریلوی مکتبہ فکر کی تمام جماعتوں کے قائدین مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلوں پر عید مناتے ہیں تو کیا مذہبی جماعتوں کی اتنی بڑی تعداد اور ان کی قیادت اور دینی مدارس کی اتنی کثیر تعداد اور اس کے مشائخ سب کے اس فیصلے کو غلط قرار دینے کے لیے جس قوت کے فنی اور فقہی دلائل درکار ہیں وہ ہماری ان مقامی کمیٹیوں کے حضرات کے پاس ہیں؟؟
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
اب وقت ہے کہ عوام اس ذہنی وفکر ی اور عملی بدمزگی سے نجات حاصل کریں، ملک میں اتفاق واتحاد اور یکجہتی کی فضاء بنے تو اس کے لیے واعتصموبحبل اللّٰہ جمیعاولاتفرقوکی عملی تفسیر کا مظاہرہ کرنا ہوگا نارضی، ہٹ دھرمی اور انا کے خول سے باہر نکل کر علمی اختلاف کو چار دیواری تک ہی محدود کرنا ہوگا ہر ملک اور ہر خطہ زمین کا اپنا اپنا جغرافیہ ہوتا ہے، سعودی عرب میں چاند نظر آئے یہ ضروری نہیں کہ اس دن پاکستان میں بھی نظر آئے پھر پاکستان اور سعودی عرب کے طلوع اور غروب کے ٹائم میں ساڑھے پانچ گھنٹے کا فرق ہے اس سمیت دیگر بہت سی باتوں پر ہماری مقامی کمیٹیوں کے حضرات کوغور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ راقم الحروف نے ان مقانی کمیٹیوں کے فیصلوں کو فن فلکیات کی رو، رویت ہلال سے متعلق دنیا کی عظیم ترین رصدگاہ ’’گرین وچ آبزرویٹری‘‘ کی ماہانہ پیش گوئیوں اور ملک کی معروف دینی جامعہ کے امکان رویت ماہ شعبان اور رمضان سے بڑی عرق ریزی، باریک بینی اور دور اندیشی سے جانچا وپرکھا ہے مگر مجھے ان مقامی کمیٹیوں کے فیصلوں سے ’’موافقت‘‘ نظر نہیں آئی دوسری بات ہمارے مشاہدے میں یہ آئی ہے کہ اور کہیں ہم نے یہ پڑھا بھی تھا کہ سعودی عرب میں ’’امکان رویت ہلال‘‘ کا باقاعدہ اعلان نہیں ہوتا بلکہ ایک طے شدہ ٹائم ٹیبل شیڈول کے مطابق فیصلے کیے جاتے ہیں جس میں بارہا خامیاں پائی گئی ہیں دعا ہے کہ یاللہ عوام کو اس بے چینی اور بدمزگی سے مستقل نجات عطا فرما۔