فرقہ واریت پھیلانے کی دانستہ کوشش

216

صائمہ عبدالواحد، کراچی
وطن عزیز پاکستان میں تمام مسلک اور تمام مکاتب فکر کے عوام پر سکون انداز میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ماضی میں عصبیت کا نعرہ لگانے والے وطن عزیز کو فرقہ واریت کی آگ میں جھونکنے کی سر توڑ کوشش کرتے رہے ہیں۔مسجدوں اور امام بارگاہوں میں بم دھماکے،علماء کو شہید کیے جانے کے بے شمار واقعات کے باوجود دشمنان اسلام اور پاکستان کے دلی ارمان پورے نہ ہو سکے اور ان شاء اللہ کبھی نہ ہوں گے۔ اس کے لیے منبر اور مساجد میں علماء کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔
24 مئی بروز جمعرات عامر لیاقت حسین نے جانتے بوجھتے دو مختلف مسالک کے علماء کے درمیان بحث کو بڑھاوا دیا اور ڈاکٹر ذاکر نائیک کو خوامخواہ موضوع بحث بنایا اور عوام کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی۔ جس پر پیمرا نے بروقت نوٹس لیتے ہوئے عامر لیاقت کی میزبانی میں تمام پروگراموں پر پابندی لگائی دی۔ جب کہ مذہبی منافرت پھیلانے والا مذکورہ پروگرام اب تک جاری ہے۔ کیا پیمرا کو ایسے تمام پروگراموں پر پابندی نہیں لگانی چاہیے؟؟۔ وہ تمام علماء جو اس پروگرام میں شرکت کررہے ہیں یا عامر لیاقت کی جگہ اس پروگرام کو ہوسٹ کررہے انہیں کب اس بات کا خیال آئے گا کہ ایک پروگرام کو بچانے کی خاطر وہ امت کے اتحاد کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔کیا علماء کی انا کی تسکین کے لیے امت کو فرقہ واریت کی طرف دھکیلنا صحیح ہو گا۔ اس وقت ہمیں اپنے فوائد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے امت کے اتحاد کے لیے سوچنے کی ضرورت ہے۔ اپنی دوستیاں اور یاریاں امت کے فائدے کے لیے قربان کرنے کی ضرورت ہے۔ اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے پیمرا، عدالت اور میڈیا چینلوں کے مالکان کو خصوصاً بول چینل کے مالکان کو اور پروگرام میں شریک تمام علماء کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور یہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اور وطن عزیز کے مفاد میں یہی ہے کہ عامر لیاقت حسین جیسے لوگوں کو ایسے مواقع ہرگز نہیں ملنے چاہئیں، بلکہ ان پر تاحیات پابندی عائد کی جانی چاہیے۔ ایسے لوگ خبروں میں ان رہنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں عوام کے جذبات کو بھڑکانا اور مذہبی منافرت پھیلانا کسی بھی طور سے اس ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔
مجھے امید ہے کہ آپ اپنے عہدے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپنا کردار ضرور ادا کریں گے۔