کراچی (رپورٹ: محمد انور) بلدیہ کراچی کے واحد کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج (کے ایم ڈی سی) میں پرنسپل کی تقرری اور اساتذہ کی ترقیوں کے معاملے پر سنگین نوعیت کی بے قاعدگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ میئر کراچی وسیم اختر نے جو کے ایم ڈی سی کے چیئرمین بھی ہیں نے سندھ ہائی کورٹ کے حکم کو جواز بنا کر کے ایم ڈی سی کا پرنسپل ایک ڈینٹسٹ پروفیسر ڈاکٹر محمود حیدرکو بنا دیا ہے جبکہ دوسری طرف بلدیہ عظمیٰ میٹرو پولیٹن کمشنر نے اختیارات نہ ہونے کے باوجود ڈپارٹمینٹل پروموشن کمیٹی کا اجلاس طلب کرکے سینارٹی لسٹ کو ظاہر کیے بغیر من پسند افراد کو ترقیاں دینے کا فیصلہ کرلیا جس کے باعث کالج اساتذہ میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ اس ضمن میں جسارت کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ میئر وسیم اختر نے کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے کالج کے سینئر پروفیسر
ڈاکٹر محمود حیدر کو تعینات کیا ہے‘ ڈاکٹر محمود حیدر اس سے قبل اپنی تعلیمی قابلیت کی وجہ سے کالج کے وائس پرنسپل تھے۔ یاد رہے کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے رولز کے تحت کسی میڈیکل و ڈینٹل کالج میں ڈینٹل سرجن کو وائس پرنسپل مقرر کیا جاسکتا ہے جبکہ پرنسپل کے لیے ایم بی بی ایس پاس پروفیسر ہی کو پرنسپل تعینات کیا جاسکتا ہے۔ پی ایم ڈی سی نے اپنے قوانین میں واضح کیا ہے کہ اس کی خلاف ورزی پر کالج کا کونسل سے الحاق ختم بھی کیا جاسکتا ہے تاہم مئیر وسیم اختر نے ڈاکٹر محمود حیدر کو وائس پرنسپل کی اسامی سے ہٹا کر پرنسپل مقرر کردیا ہے حالانکہ عدالت نے اپنے حکم میں واضح کیا تھا کہ کالج کے کسی سینئر پروفیسر کو جو قواعد پر پورا اترتا ہو پرنسپل مقرر کیا جائے۔ ساتھ ہی عدالت نے سینارٹی لسٹ بھی پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔ کے ایم ڈی سی میں ڈینٹسٹ کو پرنسپل مقرر کیے جانے سے قوانین کے تحت اس اسامی کے حقدار سینئر پروفیسر میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ جسارت کی تحقیقات کے دوران ایک سینئر پروفیسر نے بتایا ہے کہ کے ایم ڈی سی کی گورننگ باڈی کے2 سابقہ اجلاس کے منٹس کی منظوری نہ ہونے کے باوجود مزید اجلاس بھی طلب کیے گئے۔ اسی طرح 26 مئی کو کالج کی ڈپارٹمینٹل کمیٹی کا اجلاس بھی خلاف قانون طلب کیا گیا اور خلاف ضابطہ اس اجلاس کی صدارت میٹرو پولیٹن کمشنر ڈاکٹر سیف الرحمان نے کی حالانکہ اس اجلاس کے سرکلر کے مطابق اجلاس کی صدارت میئر کراچی کو کرنا تھی جبکہ اجلاس میں کمیٹی کے دیگر ممبران کو مدعو کیا گیا تھا۔ ڈی پی سیکمیٹی میں بحیثیت ممبر میٹرو پولیٹن کمشنر کے شامل نہ ہونے کے باوجود انہوں نے26 مئی کو ہونے والے اجلاس کی صدارت خلاف قانون کی اور مختلف گریڈ کے اساتذہ اور دیگر کی ترقی کا فیصلہ کیا گیا جس کا اعلامیہ 27 مئی کو بلدیہ عظمیٰ کے ترجمان نے جاری کیا۔ اس اعلامیے کے مطابق ڈی پی سی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت میٹرو پولیٹن کمشنر ڈاکٹر سید سیف الرحمان نے کی جس میں ترقیوں کے لیے تمام تجاویزکا جائزہ لیا گیا اور ترقیوں کا فیصلہ کیا گیا تاہم جن اساتذہ و دیگر افراد کو ترقی دینے کا فیصلہ کیا گیا ان کے نام نہیں بتائے گئے اور نہ ہی کے ایم ڈی سی میں اس حوالے سے کوئی سرکلر جاری نہیں کیا گیا۔ ذرائع نے بتایا کہ کمیٹی کے اجلاس سے قبل سینارٹی لسٹ فائنل کی جانی تھی اور طریقہ کار کے تحت یہ لسٹ کالج میں آویزاں بھی کی جانی تھی مگر اس بار ایسا نہیں کیا گیا۔ کے ایم ڈی سی کی گورننگ باڈی اور ڈی پی سی میں شامل ایک افسر نے بتایا ہے کہ گزشتہ اجلاس میں صرف یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ گورننگ باڈی اور پروموشن کمیٹی میں میٹرو پولیٹن کمشنر کو بھی نامزد کیا جائے گا۔ اس اعلیٰ اورذمے دار افسر نے ڈپارٹمینٹل کمیٹی کے اجلاس سے ہی لاعلمی ظاہر کردی ہے۔ذرائع کے مطابق کے ایم سی کے ترجمان نے جو اعلامیہ جاری کیا ہے اس کے مطابق جن ٹیچرز اور دیگر کی ترقی کا فیصلہ کیا گیا ہے‘ ان میں ایک ڈاکٹر زہرہ بتول بھی ہیں جو میٹروپولیٹن کمشنر کی قریبی رشتے دار ہیں‘ اس لحاظ سے بھی ایم سی نہ پروموشن کمیٹی میں شامل ہوسکتے ہیں اور نہ ہی اس کے اجلاس کی صدارت کرسکتے ہیں۔ کے ایم ڈی سی کے معاملات میں بے قاعدگیوں پر “جسارت انویسٹی گیشن ٹیم ” کی تحقیقات جاری ہے مزید انکشافات جلد سامنے لائے جائیں گے۔