رحمت منتظر

351

روزہ اس بات کا اظہار ہے کہ اللہ جل جلالہ معبود ہے اور انسان اس کا غلام۔ ایسا غلام جس کا کچھ بھی اس کے اختیار میں نہیں حتی کہ کھانا پینا بھی نہیں۔ کھانے پینے میں بھی وہ اس کے اشارے کا منتظر ہے۔ رمضان المبارک کے نصاب میں، انسان کے طرز عمل کا وہ نظام شامل ہے جو ایک غلام کے آقا اور حقیقی معبود سے ربط اور تعلق کو قوت دیتا ہے۔ یہ غلامی انسانیت کا وہ شرف ہے جو اس کی روح میں پنہاں فرشتوں کے سے نور اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے اشتیاق ومحبت اور عشق کو اجاگر کرتی ہے۔ انسان کی جسمانی، نفسانی اور حیوانی صلاحیتوں کو ربط وضبط سے آگاہ کرتی ہے۔ انسان اس لافانی کارواں میں شامل ہو جاتا ہے جس میں شامل ہر فرد عبادت میں فرشتوں کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ عبادت نیکی سچائی اور خوبصورتی کے ہالے کا آپ کے گرد حلقہ ہے۔ وہ روحیں جو سارا سال قطرہ قطرہ اس سر چشمہ عبادت سے نکھار، حیات اور تازگی حاصل کرتی ہیں اس ماہ مبارک میں اس سر چشمہ عبادت کو، اپنے خالق حقیقی کو، اپنے دل میں جلوہ گر دیکھتی ہیں۔
عبادت دنیا اور عقبیٰ کی سعادت ہے۔ عبادت وصال کی ایک راہ ہے۔ روزہ اس راہ پر نفس کی سازشو ں کے خلاف ایک ڈھال ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس مشکل اور بے ثمر دنیا میں اس ڈھال کو پناہ بنا لیتے ہیں۔ اپنی روح کو اس ماہ مبارک کے احکامات کے تابع کر لیتے ہیں لیکن نفس کی مکاریاں ہار ماننے والی کہاں، وہ اس اطاعت میں بھی چور راستے تراش لیتی ہیں۔ لوگوں کی ایک تعداد ایسی ہے جو اس ماہ مبارک میں عبادت کی طرف متوجہ ہو تی ہے۔ تراویح کا اہتمام کر تی ہے۔ لیکن کوشش ہوتی ہے کہ کسی ایسے قاری کا پتا چل جائے جو آدھ گھنٹے میں ایک پارہ سوا پارہ پڑھ دیتا ہو۔ یہ لوگ قرآن سن لیتے ہیں لیکن قرآن کی حلاوت، سحر انگیزی اور دلکشی ان سے آشنا نہیں ہوتی۔ قرآن سے محبت اور جذبات وابستہ نہیں ہوتے۔ سینے میں تلاطم پیدا نہیں ہوتا۔ آنکھیں اشکبار اور دل بے قرار نہیں ہوتا۔ کسی بھی طرح روزانہ بیس رکعات ادا کیں۔ ستائیسویں شب تک ختم قرآن کی رسم پوری کی لیکن قرآن سے آگہی تو کیا تعارف بھی نہیں ہوتا۔
یہ مت سمجھ لیجیے گا یہ لوگ ناکام رہے۔ نہیں، نہیں، ہر گز نہیں، بخدا ہر گز نہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنی طرف متوجہ ہونے والے شخص کو کبھی مسترد نہیں کرتے۔ وہ نفل پر بھی محبت اور شفقت سے سینے سے لگالیتے ہیں۔
رمضان المبارک میں وقت کی پابندی کا خام اور پست تصور بھی ہمارے حاشیہ خیال سے دور نکل جاتا ہے۔ دفاتر میں تاخیر سے پہنچنا شرمندگی کا باعث نہیں ہوتا۔ ہمارا روزہ جو ہے۔ کوئی کچھ کہہ بھی دے تو ہمارا جواب ہوتا ہے رمضان میں کون وقت کی پابندی کرتا ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر ہمیں غصہ آنے لگتا ہے۔ اگرکوئی سوالی اپنے کام پر اصرار کرے، سست روی کی شکایت کرے تو ہم آگ بگولہ ہوجاتے ہیں۔ وہ کام جو ہماری ذرا سی توجہ اور قلم چلانے سے چند ساعتوں میں ہو سکتا ہے اس کے لیے بھی ہم اسے اگلے دن یا بعد میں آنے کے لیے کہہ دیتے ہیں یہ خیال نہیں کرتے کہ اس غریب کا بھی روزہ ہوگا۔ روزے کی حالت میں سفر کی صعوبتیں جھیلتا دھوپ میں وہ کہاں سے آیا ہوگا۔ سر کاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں کے مریضوں سے سلوک میں یہ ناروا اور اندوہناک رویہ ہمیں بدصورتی اور گھناؤنے پن کی حدوں پر نظر آتا ہے۔ حالاں کہ روزے کی حالت میں اس طرز عمل میں معمولی سی تبدیلی ہمیں خدا کا مقرب بنا سکتی ہے۔
چار پانچ بجے ہم گھر پہنچتے ہیں تو ہمیں آرام کی طلب ہوتی ہے۔ ہم گھر والوں سے کہہ دیتے ہیں ہمیں عصر کے لیے بیدار مت کرنا۔ ہم خود اٹھ جائیں گے۔ عصر کی جماعت نکل جاتی ہے۔ مغرب سے کچھ پہلے ہماری آنکھ کھلتی ہے۔ جلدی سے گھر میں عصرکی نماز ادا کرتے ہیں اور پھر ہم ٹی وی کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔ افطار کے وقت ہماری خواہش ہوتی ہے کہ دنیا کی انواع واقسام کی تمام نعمتیں از قسم طعام ہمارے دستر خوان کی زینت ہوں۔ افطار میں ہم دعا کا اہتمام کرتے ہیں اس کے بعد نہ ہمیں کھانے کی سنتوں کا خیال رہتا ہے اور نہ کھانے کی مقدار کا۔ ہم اتنا نوش جاں کر لیتے ہیں کہ مغرب کی نماز کی ادائیگی کے لیے دستر خوان سے اٹھنا اور مسجد تک پہنچنا دشوار ہو جاتا ہے۔ اللہ بھلا کرے مسجد کے امام صاحب کا کہ آج کل نماز مغرب اذان کے پندرہ بیس منٹ بعد ادا کی جانے لگی ہے ورنہ جماعت سے نمازپڑھنا ممکن نہ ہو۔
رمضان المبارک میں دل بہلا رہے اس کا ہمیں بڑا خیال رہتا ہے۔ مطالعہ کتب تو اب معمول نہیں رہا البتہ ایک کتاب ایسی ہے جو وقت گزاری کے لیے پو رے سال کی طر ح اس ماہ بھی ہماری پناہ گاہ ہوتی ہے وہ ہے فیس بک۔ وہ لمحات جو تلاوت قرآن اور ذکر الٰہی میں گزرنے چاہیں ہم فیس بک، واٹس اپ اور نہ جانے کن کن سائٹس پر گزار دیتے ہیں۔ اس سے تھکتے ہیں تو ہم ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔ یہاں مختلف چینلوں کے ڈراموں کے لامتناہی سلسلے ہمارے منتظر ہوتے ہیں۔ چینلز بدل بدل کر ہم ڈرامے دیکھتے رہتے ہیں۔ ان سے بور ہوتے ہیں تو پھر ان چینلوں کی رمضان نشریات ہمارا اگلا پڑاؤ ہو تی ہیں۔ ان پروگراموں کو ہم بڑے خشوع وخضوع کے ساتھ دیکھتے ہیں اور شاید ثواب کا باعث بھی سمجھنے لگے ہیں۔ بھانڈوں اور میراثیوں کی ایک پوری ٹیم ہے جو اس ماہ مبارک کی مناسبت سے گیٹ اپ اختیار کیے، مذہبی باتوں کی مشق کیے اپنے چینل کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے دلکش سیٹوں کے جلو میں پروگرام سجائے بیٹھی ہوتی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم اگرچہ ابھی مکمل طور پر عملی صورت بھی اختیار نہ کرسکا تھا کہ اس حکم کو ختم کردیا گیا۔
کیا اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو روزے کے دوران ہمارے ایسے معمولات مطلوب ہیں۔ یہ ہے وہ روزہ اللہ کی آخری کتاب جس کے اہتمام پر زور دیتی ہے۔ کیا ان معمولات کو اختیار کر کے ہم تزکیہ نفس کے مراحل طے کر سکتے ہیں۔ ذرا سوچیے۔ اس ماہ مبارک کے حوالے سے ہم نے اس ذات اقدس کے روز وشب مطالعہ کیے جن کے طلوع ہونے کے بعد وقت کے لبوں پر درود وسلام اور نعتوں کی سعادت مسکرانے لگی۔ وداع کی پہاڑیاں جہاں سے ہم پر چودھویں کا وہ چاند طلوع ہوا جس کے بعد ہم پر لازم تھا کہ ہم بار گاہ خداوندی میں شکر کے ساتھ اس وقت تک سجدہ ریز رہتے جب تک زندگی کی آخری ساعت خاک نہ ہو جاتی، ہم نے کسی ایسی مستند کتاب کا مطالعہ کیا جو ہمیں آگاہ کرسکے کہ وہ چودھویں کے چاند، ختم المرسلین ؐ اس ماہ مبارک میں عبادت کی کن وسعتوں کے متلاشی رہتے تھے۔ ہم نے قرآن کریم کے معانی اور تفسیر کے مطالعے کا کوئی ہدف طے کیا۔ کسی تفسیر کا انتخاب کیا۔ رمضان میں جس طرح ہم جسمانی ضروریات کا خیا ل رکھتے ہیں قرآن کریم کے معانی اور تفسیر کی سرزمین سے ہم نے اپنی روحانی، قلبی اور فکر ی بلندی کی کوشش کی۔ وہ جس نے آسمان دنیا کو ستاروں سے مزین کیا ہے اس اللہ ربّ العز ت کے کلام کی تفاسیر کا رسالت مآب ؐ کی سیرت کی کتب کا ایک وسیع ذخیرہ ان گنت ویب سائٹس پر موجود ہے جہاں سے انہیں با آسانی ڈاؤن لوڈ کر کے مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ فضول ویب سائٹس کے بجائے یہ مطالعہ شعار کیجیے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین سے احترام محبت اور عشق کیجیے۔ اسلام کی روح کی کرنیں آپ کے قلب وجاں میں اترتی چلی جائیں گی۔ اسلام کے ساتھ آپ کا مضبوط قلبی اور روحانی تعلق قائم ہو جائے گا۔
اللہ جل شانہ کو جان کر، پہچان کر اس کی اطاعت بجا لائیے۔ اس کی معرفت حاصل کیجیے۔ رسول اللہ ؐ کے تربیتی نظام سے اپنے آپ کو گزاریے رمضان المبارک میں یہ سب بہت آسان ہے دنیا اور آخرت کی سعادت آپ کی منتظر ہے۔ وہ اللہ ربّ العزت جو آسمان پر ستارے اور پودوں پر خوشبو دار پھول اور شگوفے بکھیرتے ہیں ان کی رحمت آپ کی طرف متوجہ ہے۔