ماتحت عدالتوں کے متنازع فیصلے

318

پاکستان کا نظام عدل پہلے ہی کئی پیچیدگیوں کا شکار ہے اور اس کی خامیاں گاہے گاہے سامنے آتی رہتی ہیں۔ لیکن گزشتہ دنوں ماتحت عدالتوں نے ایسے کئی فیصلے کیے جن کا عدالت عظمیٰ نے نوٹس لیا اور ان کو منسوخ کردیا۔ گزشتہ دنوں کراچی کے سیشن کورٹ نے ایک نوجوان شاہ زیب کے قاتل شاہ رخ جتوئی کو بری کرنے کا حکم دیا۔ گزشتہ منگل کو لاہور کی عدالت عالیہ نے ایک طالبہ خدیجہ صدیقی پر چھریوں کے متعدد وار کرنے کے ملزم شاہ حسین کو بری کردیا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے از خود نوٹس لیتے ہوئے مقدمے کا ریکارڈ طلب کرلیااور 10 جون کو لاہور رجسٹری میں اس معاملے کی سماعت کریں گے۔ متعلقہ حکام کو مقدمے کا تمام ریکارڈ اور تفصیلات کے ساتھ پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے عدالت عالیہ لاہور کی طرف سے ملزم کو بری کرنے کے حکم سے پہلے جوڈیشل مجسٹریٹ نے ملزم کو 7 سال قید کی سزا سنائی تھی تاہم سیشن عدالت سے سزا کم کرکے 5 سال کردی تھی۔ ملزم شاہ حسین نے سزا کے خلاف عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی تھی جس پر وہ چھوڑدیاگیا۔ قانون کی طالبہ خدیجہ صدیقی کو مئی 2016ء میں اس کے کلاس فیلو شاہ حسین نے چھریوں کے متعدد وار کرکے لہو لہان کردیا تھا تاہم وہ زندہ بچ گئی۔ ملزم با اثر ہونے کی وجہ سے آزادانہ گھومتا رہا۔ معاملہ میڈیا پر آیا تو چیف جسٹس ہائی کورٹ نے نوٹس لیتے ہوئے ایک ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کا حکم دیا اور ملزم کو سات سال قید کی سزا سنائی گئی جو کم ہوکر 5 سال کردی گئی اور اب وہ صاف بری ہوگیا ہے۔ اس پر بھی سوشل میڈیا میں شور مچا تو چیف جسٹس پاکستان نے نوٹس لیا۔ اب اگر عدالت عظمیٰ کا فیصلہ کچھ اور آیا تو کیا عدالت عالیہ اور سیشن کورٹ اپنی غلطی قبول کریں گی اور کیا متنازع فیصلہ کرنے پر کسی کی گرفت کی جائے گی۔ جن عدالتوں نے ایک با اثر نوجوان شاہ رخ جتوئی کو بری کیا اور خدیجہ پر چھریوں کے وار کرنے والے شاہ حسین کو کھلی چھوٹ دی تو ان معزز ججوں نے کسی جواز کی بنیاد ہی پر یہ فیصلے دیے ہوں گے۔ وہ کیا جوازات تھے، وہ سامنے آنے چاہییں اور فیصلے غلط ثابت ہونے پر کیا مذکورہ منصفین سے باز پرس نہیں ہونی چاہیے؟ غلط فیصلے کرنے والوں کو عدل کے منصب سے ہٹا نہیں دینا چاہیے۔ بات ان فیصلوں اور ججوں کی نہیں لیکن اس قسم کے فیصلوں سے عوام میں یہ تاثر قوی ہوجاتا ہے کہ عدالتی اہلکار بھی بک جاتے ہیں۔ شاہ رخ جتوئی کے خلاف متعدد ثبوت تھے اسی طرح خدیجہ پر حملہ کرنے کے شواہد موجود ہیں۔ اس سے پہلے بھی عدالتیں ایسے فیصلے کرچکی ہیں جو عدالت عظمیٰ نے معطل یا ختم کردیے۔ کاغذات نامزدگی کے بارے میں عدالت عالیہ لاہور کے فیصلے نے سیاسی بے چینی پیدا کی، حلقہ بندیوں کے بارے میں فیصلہ بھی متنازع رہا، ماتحت عدالتوں کے فیصلے اعلیٰ ترین عدالت میں جاکر منسوخ ہوجائیں تو اس سے ایک طرف تو عدالتوں کی کارکردگی مشکوک ہوجاتی ہے دوسری طرف عدالت عظمیٰ پر بوجھ بھی بڑھ جاتا ہے۔ یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ لاکھوں مقدمات زیر التوا ہیں۔