متحدہ مجلس عمل کا منشور

602

متحدہ مجلس عمل نے گزشتہ منگل کو ا پنے منشور کا اعلان کردیا ہے۔ مجلس عمل کا احیا اس لیے بھی خوش آئندہ ہے کہ اس میں ملک کی تمام دینی جماعتیں مسلک اور فقہ سے بالاتر ہوکر متحد ہیں۔ صرف اس اتحاد ہی کی وجہ سے پاکستان میں شیعہ، سنی، بریلوی، دیوبندی اور اہلحدیث کے مابین اختلافات بڑی حد تک کم ہوسکتے ہیں۔ دیکھا جائے تو علمی اور فقہی اختلافات جب علما کی سطح سے اتر کر عوام میں آتے ہیں تو قوم کے لیے سنگین خطرہ بھی بن جاتے ہیں اور تصادم کی نوبت آجاتی ہے۔ اختلافات کو ہوا دینے میں بعض ایسے جاہلوں کا کردار ہوتا ہے جو ذاتی مفادات اور سستی شہرت کی خاطر یہ کام کرتے ہیں تاکہ ان کی روزی، روٹی چلتی رہے۔ جو علما حق ہیں ان میں کوئی اختلاف نظر نہیں آتا اور سب ہی اﷲ کی وحدانیت اور رسول اکرمؐ کی اطاعت کا درس دیتے ہیں۔ منزل سب کی ایک ہے، راستے جدا ہوسکتے ہیں۔ بہر حال، متحدہ مجلس عمل کے قیام سے باہم یکجہتی کو فروغ مل سکتا ہے جو فی زمانہ بہت ضروری ہے۔ مسلمانوں میں افتراق و انتشار عالمی سطح پر بڑھتا جارہاہے جب کہ دوسری طرف کفر ملت واحدہ بن کر مسلمانوں کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ مجلس عمل کے صدر مولانا فضل الرحمن نے جس منشور کا اعلان کیا ہے وہ ہر پاکستانی کی دلی آرزو ہے۔ منشور بظاہر انتخابی ہے لیکن انتخابی کامیابی سے قطع نظر بھی اس پر عمل در آمد لازم ہے۔ منشور میں ترجیح اس بات کو دی گئی ہے کہ پاکستان میں نظام مصطفی نافذ کیا جائے گا، سود کا خاتمہ، روزگار کی فراہمی، خواتین کا تحفظ، ٹیکس میں کمی کی جائے گی۔ آئین کی اسلامی شقوں، قومی آزادی کے تحفظ، نظام عدل کا اہتمام، معاشی خوش حالی، زرعی ترقی، فرقہ وارانہ تعصبات کا خاتمہ، اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ترجیحات میں شامل ہیں۔ یہ تمام نکات ایسے ہیں جن سے کسی بھی پاکستانی کو اختلاف نہیں ہوسکتا لیکن ایسے اسلامی اور قومی منشور کا اطلاق اقتدار سے مشروط ہے۔ظاہر ہے کہ یہ سارے کام اسی وقت ہوسکتے ہیں جب قوت نافذہ متحدہ مجلس عمل کے پاس ہو۔ عجیب بات ہے کہ اہل پاکستان کی اکثریت نظام مصطفی کے نفاذ پر متفق ہے جس کا ثبوت کئی بار ملک گیر سروے میں مل چکا ہے۔ لیکن جب انتخابات میں ووٹ دینے کی باری آتی ہے تو دینی جماعتیں پیچھے رہ جاتی ہیں جس کا مطلب ہے کہ عوام خواہش کے باوجود دینی جماعتوں کو اقتدار سونپنے سے گریز کرتے ہیں۔ پاکستان کے عوام فوجی حکومتوں سمیت ہر طرح کی سیاسی جماعت کا اقتدار دیکھ اور پرکھ چکے ہیں جنہوں نے ملک کو سوائے تنزل کی طرف لے جانے اور خرابیاں بڑھانے کے کچھ نہیں کیا۔ کبھی دینی جماعتوں کو بھی آزماکر دیکھیں۔ مجلس عمل کا وعدہ ہے کہ اقتدار میں آکر ضروریات زندگی کی قیمتیں کم کردیں گے۔ سب کو یکساں مفت علاج اور تعلیمی سہولیات میسر ہوں گی۔ ماورائے قانون گرفتاریاں نہیں ہوں گی۔ گزشتہ 10 سال میں دو سیاسی جماعتوں نے اقتدار کی مدت پوری کی ہے اور وعدے ان کے بھی یہی تھے لیکن ایک بھی وعدہ اور دعویٰ پورا نہیں ہوا میاں نواز شریف کا دعویٰ تھا کہ اقتدار میں آکر اشیائے ضرورت کی قیمتیں 1999ء کی سطح پر لے آئیں گے جب ان سے جنرل پرویز مشرف نے وزارت عظمیٰ چھینی تھی۔ 2013ء میں تیسری بار اقتدار ملا وہ خود ہی بتادیں کہ کس شے کی قیمت وہ 1999ء کی سطح پر لے کر آئے۔ پٹرولیم مصنوعات سمیت ہر شے کی قیمت آسمان پر پہنچادی گئی اس پر بھی یہ دعویٰ کہ جب تک ہم تھے سب کچھ ٹھیک تھا۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ جولائی 2017ء میں عدالت کے حکم پر ان کی نا اہلی کے باوجود حکومت ان کی اور ان کی پارٹی ہی کی تھی۔ ن لیگ کے صدر میاں شہباز شریف جاتے جاتے یہ کہہ گئے کہ اب اگر لوڈ شڈنگ ہوئی تو ہم ذمے دار نہیں، نگران حکومت سے پوچھا جائے۔ لیکن ان کے طویل دور اقتدار میں کیا لوڈ شیڈنگ نہیں ہورہی تھی۔ ن لیگ کی حکومت نے بجلی کی پیداوار میں جس اضافے کا اعلان کیا تھا کیا وہ اپنے ساتھ ہی لے گئی؟ ن لیگ کے وفاقی وزیر اویس لغاری کا دعویٰ تھا کہ بجلی ضرورت سے زیدہ ہے۔ اب وہ کہاں گئی؟ یکساں مفت علاج اور تعلیمی سہولتیں کس کو میسر رہیں۔ آصف زرداری کے سندھ کا حال تو سب سے برا ہے۔ اب ان باتوں کی نشاندہی چیف جسٹس پاکستان کریں تو حکمران کہتے ہیں کہ ہمیں کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ کرپشن بڑھتا چلا گیا ہے عوام اپنے مسائل کے حل اور بہتر پاکستان کی بنیاد رکھنے کے لیے ایک بار متحدہ مجلس عمل کو آزماکر دیکھیں۔