کراچی (رپورٹ: محمد انور) کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ ( کے ڈبلیو اینڈ ایس بی ) کی صرف 25 ارب روپے مالیت کی اراضی قبضہ نہیں کرائی گئی بلکہ کھربوں روپے مالیت کی کم ازکم ایک ہزار مربع ایکڑ زمین مقبوضہ ہوچکی ہے۔ قابضین میں نجی بلڈرز کے ساتھ سرکاری ادارے بھی شامل ہیں۔ اس بات کا انکشاف کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ایم ڈی خالد محمود شیخ کی جانب سے قائم کی گئی خصوصی تحقیقاتی ٹیم کے ایک افسر نے کیا ہے۔ اس افسر کے مطابق کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی اراضی کے ساتھ بنیادی طور پر کھلواڑ کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی ( کے ڈی اے ) نے کیا ہے جس کا کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ 1957 کے بعد سے اس کا حصہ تھا۔ 1981 میں اس وقت کے گورنر سندھ ایس ایم عباسی کے سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 1979 کے تحت کے ڈبلیو اینڈ ایس بی قائم کیا گیا اور اس کے ڈی اے سے اثاثوں و عملے سمیت الگ کردیا گیا تھا۔ کے ڈبلیو اینڈ ایس پی الگ ہونے کے بعد گریٹر کراچی واٹر اسکیم کی اراضی طریقہ کار کے تحت واٹر بورڈ کے سپرد نہیں کی گئی جس کی وجہ سے کراچی کے اندر موجود اس کی کم و بیش 750 ایکڑ زمین مختلف اداروں کی طرف سے قبضہ کرلی گئی۔ سی او ڈی فلٹر پلانٹ گلشن اقبال کے قرب و جوار اور کے ڈی اے آفیسرز سوسائٹی بھی واٹر بورڈ کی اراضی پر قائم ہے۔ مذکورہ افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کے ساتھ بتایا ہے کہ نیشنل اسٹیڈیم بھی گریٹر بلک واٹر اسکیم کی زمین پر قائم ہے حالانکہ اسے نیشنل کوچنگ سینٹر کی طرف بننا تھا۔ چونکہ کے ڈی اے نے واٹر بورڈ کے قیام کے بعد اس کی اراضی کے دستاویزات بورڈ کے سپرد نہیں کیے تھے اس لیے وہ بلک واٹر اسکیموں کی اراضی بھی فروخت کرنا شروع کردی حالانکہ یہ عمل غیر قانونی تھا۔ اسی طرح کے ڈی اے افیسرز سوسائٹی اج بھی کے ڈی اے کے نام پر نہیں ہے یہ اج بھی گریٹر بلک واٹر اسکیم کا حصہ ہے اس کے اور نیشنل اسٹیڈیم کے قرب جوار سے 84 اور 72 انچ قطر کی بلک پائپ لائنیں گزر رہیں ہیں۔ اس اسکیم کے اوپر ایک اہم وفاقی ادارے کی ہاؤسنگ سوسائٹی بھی ہے۔اس افسر نے بتایا کہ نارتھ ناظم آباد میں سخی حسن ہائندرنٹ کے ساتھ بھی کم و بیش 7 ایکڑ زمین واٹر بورڈ کی ملکیت ہے جہاں ڈی سی سننٹرل کے دفاتر اور عملے کی رہائش گاہیں بنادیں گئیں۔ مذکورہ افسر کے مطابق سفورا چورنگی یونیورسٹی روڈ پر پریم ولاز بھی غیر قانونی طور پر قبضہ کی گئیں یا حاصل کی زمین پر قائم ہے اس زمین کے نیچے بڑی بلک واٹر لائینیں گزر رہی ہیں۔ اسی وجہ سے واٹر بورڈ نے اپنا ہائیڈرنٹ بھی یہاں قائم کیا ہوا ہے۔ جسارت کی تحقیقات کے مطابق واٹر بورڈ کی اراضی کی بندر بانٹ میں کے ڈی اے کے بدعنوان افسران کے ساتھ اس وقت کی کراچی بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی اور موجودہ سندھ بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی کے بعض افسران بھی ملوث رہے ہیں جنہوں بلک واٹر لائنوں کی زمینوں پر عمارتوں کی تعمیرات کی این او سی کا اجراء4 کیا۔اس ضمن میں جب جسارت انویسٹی گیشن ٹیم نے ایم ڈی واٹر بورڈ خالد محمود شیخ سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا ہے کہ نیب کی تحقیقات کے نتیجے میں ہونے والے انکشاف کے بعد انہوں نے خود واٹر بورڈ کی ایک اعلٰی سطحی تحقیقاتی ٹیم سینیر افس شعیب تغلق کی سربراہی میں تشکیل دیدی ہے جو واٹربورڈ کی تمام اراضی اور زمینی اثاثوں کا جائزہ لے رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی ٹیم کو نیب کے ساتھ ہر ممکن تعاون کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔ دریں اثناء4 یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ واٹر بورڈ میں اراضی اور دیگر اثاثوں کی حفاظت کے لیے شعبہ لینڈ و اسٹیٹ ضرورتوں کے مطابق نہیں بنایا جاسکا یہ محکمہ صرف ایک افسر پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے محکمے کو مختلف امور کی انجام دہی میں مشکلات کا بھی سامنا ہے۔یادرہے کہ قومی احتساب بیورو نیب واٹر بورڈ کی 25 ارب روپے مالیت کی اراضی کی غیرقانونی فروخت میں مبینہ طور پر ملوث بورڈ کے سابق ایم ڈی برگیڈئر ریٹائرڈ افتخار حیدر اور ان کے دو ساتھیوں کو گرفتار کرکے تحقیقات کررہی ہے۔ نیب کی تحقیقات سی او ڈی فلٹر پلانٹ کے قریب واقع ٹینس کورٹ کی زمین پر غیر قانونی تعمیرات تک پہنچ چکی ہے ۔