فاطمہ اور رزان

372

فاطمہ بنت عبداللہ عرب قبیلہ کے سردار کی بیٹی تھی۔ اس کے والد اور قبیلے کے دوسرے لوگ ترک افواج کے ساتھ جہاد میں شریک تھے۔ ان کے خاندان کی تمام عورتیں اور مرد میدان جنگ میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ عورتیں میدان جنگ میں زخمیوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔ لیکن اُن سب میں فاطمہ خاص طور سے اس لیے قابل ذکر تھیں کہ وہ عمر میں سب سے چھوٹی تھیں۔ وہ اپنا چھوٹا سا مشکیزہ کندھے پر اُٹھائے ہر لمحہ زخمیوں کو پانی پلانے اور ان کی خدمت کے لیے تیار رہتی تھیں۔
یہ جون 1912ء کی بات ہے۔ بارہ ہزار اطالویوں نے ’’زوارہ‘‘ کے مقام پر حملہ کیا، مقابلے میں عرب اور ترک ملا کر کل تین ہزار تھے۔ لڑائی پورا دن جاری رہی، آخر کار اطالوی بارہ سو لاشیں چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ فاطمہ کی شہادت کا واقعہ اخبار الہلال میں ڈاکٹر اسمٰعیل بیان کرتے ہیں کہ ’’اطالوی توپیں آگ برسا رہی تھیں، میں نے ظہر کے وقت فاطمہ کو دیکھا اُس کا چہرہ دھوئیں اور تپش سے جھلسا ہوا تھا، بالوں پر سرخی مائل ریت کی تہہ جمی تھی اُس کے والد عبداللہ بھی جنگ میں شریک تھے اور والدہ بھی فاطمہ کی طرح زخمیوں کی دیکھ بھال کر رہی تھیں۔ فاطمہ ایک زخمی کو دیکھ کر دوڑ کر اس کے پاس گئی اور چاہتی تھی کہ اپنا مشکیزہ اُس کے لبوں سے لگادے۔ ایک اطالوی سپاہی نے اس کو پکڑ لیا، فاطمہ نے اپنے آپ کو چھڑایا اور بجلی کی تیزی سے زخمی ترک کی تلوار اُٹھا کر اس پر زور سے وار کیا کہ اطالوی کا پہنچا کٹ کر لٹکنے لگا۔ فاطمہ دوبارہ اپنے کام کی طرف متوجہ ہوئیں، اطالوی نے پیچھے ہٹ کر بندوق اٹھائی اور معصوم مجاہدہ کو شہید کر ڈالا۔ یہ واقعہ اقبال نے الہلال اخبار میں پڑھ کر یہ نظم لکھی۔
فاطمہ! تو آبروے امت مرحوم ہے
ذرہ ذرہ تیری مشت خاک کا معصوم ہے
یہ سعادت حور صحرائی تیری قسمت میں تھی
غازیانِ دیں کی سقائی تیری قسمت میں تھی
یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سپر
ہے جسارت آفریں شوق شہادت کس قدر
یہ گلی بھی اس گلستانِ خزاں منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی
اپنے صحرا میں بہت آہو ابھی پوشیدہ نہیں
بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی خوابیدہ نہیں
اقبال کی یہ پیش گوئی بالکل درست تھی۔ اگرچہ اُمت مسلمہ پر خزاں کا موسم طاری ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس خزاں رسیدہ امت میں ایسی بہادر کلیاں موجود ہیں۔
ہے کوئی ہنگامہ تیری تربت خاموش میں
پل رہی ہے ایک قوم تازہ اس آغوش میں
اقبال کو فاطمہ کی موت اور اُس کی قبر کی مٹی زندگی سے بھرپور نظر آتی ہے۔ کہتے ہیں مجھے یقین ہے کہ تیری قبر کی خاموشی میں کوئی ہنگامہ چھپا ہے اور اس خاک کی گود میں ایک نئی قوم پل رہی ہے۔ آج فلسطینی قوم اور اُس کی بہادر بیٹی ’’رازان النجار‘‘ کے حالات اقبال کی پیش گوئی کو سچ ثابت کررہے ہیں۔ رازان فاطمہ کا پر تو نہیں۔ آج یہ کوئی ایک مثال نہیں ہے کشمیر کی وادی افغانستان شام امت مسلمہ کے سوختہ جاں شہروں میں یقیناًایک نئی قوم پرورش پارہی ہے۔ ابھی زمانہ اُن کے بارے میں اندھیرے میں ہے۔ لیکن یقیناًجلد وقت بدلے گا اور بقول اقبال
جو ابھی ابھرے ہیں ظلمت خانہ ایام سے
جن کی ضو نا آشنا ہے قید صبح و شام سے
جن کی تابانی میں انداز کہن بھی، نو بھی ہے
اور تیرے کوکب تقدیر کا پرتو بھی ہے
اس وقت امت مسلمہ پر ہر جگہ ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، فلسطینی اور کشمیری ہنود اور یہود کے مظالم کا شکار ہیں۔ یہاں تک کے نہتی طبی امداد دینے والی خواتین کو بھی گولیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اسرائیلی فوج نے طبی امداد فراہم کرنے والی فلسطینی دوشیزہ رازان کو نشانہ بنا کر گولی ماری۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت یہ جرم ہے جس کی باقاعدہ انویسٹی گیشن کرکے قاتل کو سزا دینی چاہیے۔
غزہ میں شہیدہ رازان کے جنازے میں عوام کا سمندر اُمنڈ آیا تھا، اس موقع پر جنازے کے شرکا نے صہیونی ریاست کی دہشت گردی کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور رازان النجار کے قتل کا بدلہ لینے کا مطالبہ کیا۔ اسرائیل کے لیے فلسطینی بستیوں کی تعمیر کا آغاز 1947ء سے ہوا۔ فلسطینیوں کو ان کے رہتے سہتے گھروں سے نکال باہر کیا گیا۔ یا قید میں ڈال دیا گیا۔ بستیوں کی تعمیر میں مسلسل اضافہ کیا جاتا رہا۔ مشرقی یروشلم، مغربی کنارہ غزہ، گولان کی پہاڑیاں سب کی سب اسرائیل کے قبضہ کیے ہوئے حصے ہیں۔
فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے نکال کر ظلم کا نشانہ بنانا اسرائیل نے تو عرصے دراز سے اختیار کیا ہوا ہے۔ دنیا کے تہذیب یافتہ ممالک بھی اس کی اس بدتہذیبی اور ظلم و درندگی میں برابر کے شریک ہیں۔ لیکن فلسطینیوں کی جدوجہد بے سروسامان کے باوجود اسرائیل کو ناکوں چنے چبوائے ہوئے ہیں۔ 30-2018مارچ سے فلسطینیوں نے حق واپسی کے لیے مظاہروں کا آغاز کیا تھا۔ یہ مظاہرے جب سے شروع ہوئے ہیں نہتے لوگوں کے ان مظاہروں سے اسرائیل خوفزدہ ہے۔ فلسطینی قوم نہتے ہاتھوں سے ہر طرح کے ہتھیاروں سے لیس اسرائیل سے نبرد آزما ہے۔ غلیل فلسطینیوں کا ہتھیار ہے جس کے ذریعے پتھروں سے گولوں، بموں اور میزائلوں کا مقابلہ کیا جارہا ہے۔ 30 مارچ 2018ء کو فلسطینیوں نے جس نئی تحریک کا آغاز کیا اُسے ’’عظیم الشان مارچ‘‘ کا نام دیا۔ رازان اسی سلسلے میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی فوج کی گولیوں اور شیلوں سے ہونے والے زخمیوں کی مرہم پٹی کررہی تھی۔ اور اسے ریڈ کراس کے واضح نشان والے کوٹ میں نشانہ لگا کر گولی ماری گئی۔ دیکھیے دنیا اسرائیل کے اس نئے اور گھناؤنے جرم کا نوٹس لیتی ہے یا نہیں؟؟۔
ویسے یہ بات تو طے ہے کہ ستر سال سے فلسطینی جذبے کو دبایا نہیں جاسکا اور وقت کے ساتھ اس کی تیزی اور شدت میں اضافہ ہورہا ہے۔ یقیناًفلسطینی قوم اپنے مقصد یعنی بیت المقدس کی آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی ان شاء اللہ۔