امیدواروں کے لیے حلف نامہ

458

پارلیمان کی طرف سے تیار کردہ نامزدگی فارم عدالت عالیہ لاہور سے مسترد ہونے اور پھر عدالت عظمیٰ کی طرف سے انہی فارموں پر نامزدگی داخل کرانے کا مسئلہ بظاہر حل ہوگیا اور انتخابات بروقت کرانے کی راہ میں ایک رکاوٹ دور ہوگئی۔ پارلیمان کے تیار کردہ نامزدگی فارم میں امیدواروں کو ہر طرح کی چھوٹ دی گئی تھی اور وہ ا پنے مکمل کوائف دینے کے پابند نہیں تھے حتیٰ کہ آئین کی شق 62 اور 63 بھی شامل نہیں کی گئی تھی تاہم اب عدالت عظمیٰ نے امیدواروں کے کوائف کی تفصیل حاصل کرنے کے لیے یہ راستہ نکالا ہے کہ نامزدگی فارم کے ساتھ ایک حلف نامہ بھی دینا ہوگا جس میں اثاثوں کی تفصیلات اور وہ تمام معلومات فراہم کرنا ہوں گی جو پارلیمان کے تیار کردہ نامزدگی فارم میں شامل نہیں کی گئی تھیں۔ عدالت عظمیٰ کے حکم پر یہ حلف نامہ الیکشن کمیشن نے تیار کیا ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے حکم نامے میں کہا تھا کہ عوام جس کو ووٹ دینے جارہے ہیں اس کے بارے میں سب کچھ جاننا ان کا حق ہے۔ پارلیمان نے نئے نامزدگی فارم الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت تیار کیے تھے۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کا موقف یہ تھا کہ نئے نامزدگی فارم تیار کرنا پارلیمان کا قانونی حق ہے جس کا تحفظ کیا جانا چاہیے۔ بہر حال اب حلف نامہ جمع کرانے کی صورت میں اس مسئلے کا ایک حل نکال لیا گیا ہے اور چیف جسٹس نے انتباہ کیا ہے کہ اگر حلف نامے میں کوئی غلط بیانی کی گئی تو یہ امیدوار کی نا اہلی کا سبب اور قابل سزا جرم سمجھا جائے گا۔ اس طرح نئے نامزدگی فارم اپنی جگہ رہیں گے البتہ امیدوار بیان حلفی کے ذریعے وہ سب تفصیلات جمع کرانے کا پابند ہوگا جو نئے فارم میں سے غائب کردی گئی ہیں۔ چیف جسٹس کا کہناہے کہ ہمیں ملک کے لیے صاف ستھرے لوگ چاہییں، قانون بنانے والوں نے چالاکیاں کرکے قوم کو مصیبت میں ڈالا۔ لیکن کیا حلف نامے میں چالاکیوں کا ارتکاب نہیں ہوگا۔ جو لوگ حلف اٹھاکر دھڑلے سے جھوٹ بول سکتے ہیں وہ مذکورہ حلف نامے میں اپنے بارے میں حقائق چھپانے سے کب گریز کریں گے۔ پچھلی قومی اسمبلیوں میں پہنچنے والے کتنے صادق و امین تھے یہ سب کو معلوم ہے۔ کئی ارکان اسمبلی نے جعلی ڈگریاں جمع کرائیں اور جب تک ان کی جعل سازی کا انکشاف ہو وہ کئی برس تک رکن اسمبلی کی تمام مراعات وصول کرتے رہے۔ چنانچہ اب مبصرین یہی کہہ رہے ہیں کہ غلط حلف نامہ جمع کرانے میں کون سی رکاوٹ حائل ہوگی جب تک چھان بین ہوگی اور کوئی فیصلہ ہوگا تب تک وہ بھی رکن اسمبلی کی حیثیت سے دندناتے اور تمام فوائد سمیٹتے رہیں گے۔ عدالت کہتی تو ہے کہ ووٹرز کی آنکھوں پر پٹی باندھنے کی اجازت نہیں دیں گے، الیکشن کمیشن فارم سے ختم کی گئی معلومات اخبارات میں چھپوادے، ارکان پارلیمان کو ا پنے بچوں اور غیر ملکی اثاثے، اکاؤنٹس بتانے میں مسئلہ کیا ہے۔ جہاں تک ووٹر کی آنکھوں پر پٹی باندھنے کی اجازت نہ دینے کا تعلق ہے تو یہ پٹی عدالت کے کسی فیصلے سے نہیں اترے گی بلکہ ووٹروں کو خود اپنی آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی۔ یہ عوام کے لیے اپنے اور ملک کے مستقبل کا درست فیصلہ کرنے کا ایک اور موقع ہے۔ وہ ہر قسم کی وابستگی، خوف اور دباؤ کو مسترد کرکے صرف ان لوگوں کو ووٹ دیں جن کا دامن ہر طرح کی بد عنوانی اور بد کرداری سے پاک ہو خواہ ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو، برادری سسٹم یا وڈیروں، جاگیرداروں کے دباؤ کو خاطر میں نہ لائیں ورنہ مزید 5 سال کے لیے نہیں بد عنوان قانون سازوں کی چالاکیوں سے واسطہ پڑے گا اور اس کے ذمے دار وہ خود ہوں گے۔ انتخابات وقت پر ہوتے نظر آرہے ہیں لیکن مثبت نتائج کا انحصار الیکشن کمیشن یا عدالتوں پر نہیں خود عوام پر ہے۔