کیاکمزور کو جینے کا حق ہوتا ہے؟

327

اللہ جانے ہمیں اللہ کے فرمان پر کب یقینِ کامل ہوگا۔ جب ہمارے پیدا کرنے والے خالق و مالک نے فرمادیا کہ یہود ونصاریٰ تمہارے دوست نہیں ہو سکتے تو پھر نہیں ہو سکتے لیکن ہماری آنکھوں پر جو پردہ پڑگیا ہے وہ اٹھ کر دینے کے لیے تیار ہی نہیں اور نہ ہی ہم چاہتے ہیں کہ یہ پردہ اٹھے۔ یہ پردہ خوف کا ہے، لالچ کا ہے اور مصلحتوں کا ہے۔ جب تک یہ ڈر، طمع اور مصلحتوں کے دبیز پردے ہماری عقل اور آنکھوں پر پڑے رہیں گے اس وقت تک ہماری غیرت جاگ ہی نہیں سکتی، جب تک ہماری غیرت کو غیرت نہیں آئے گی اس وقت تک ہم اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہو سکتے اور جب تک ہم اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہوں گے اس وقت تک دنیا کی آنکھوں سے آنکھیں ملاکر بات کرنے کے قابل نہیں ہو سکتے۔ ہمیشہ غیروں کے آگے کاسۂ گدائی پھیلائے نظر آئیں گے اور ذلت و رسوائی کواپنا اوڑھنا بجھونا بنائے پھریں گے۔ یہی عملاً ہو بھی رہا ہے جس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ امریکا بار بار ہمیں ’’بھیک‘‘ دینے کا طعنے پر طعنہ دیے جا رہا ہے اور ہم میں اتنی تاب بھی نہیں کہ یہ کہہ سکیں کہ جناب آپ اپنے ’’سکے‘‘ اپنے پاس رکھیں ہم اپنا دفاع آپ کی امداد اور بھیک کے ٹکڑوں کے بغیر بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن کیا واقعی ایسا کر سکتے ہیں؟
امریکا بہادر کا کہنا ہے کہ ہم دہشت گردی کے خاتمے کی عوض پاکستان کو کھربوں روپوں کی امداد دیتے ہیں اس لیے پاکستان کو چاہیے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف مؤثر کارروائی کرے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ ہم ان کے خلاف اپنی صلاحیتوں سے بڑھ کر کارروائی کر رہے ہیں بلکہ دنیا ہماری کارروائی کو سرہا رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان جو کارروائی بھی کر رہا ہے اور اپنے ہی ملک میں موجود اپنے دشمنوں کے خلاف کر رہا ہے تو اس میں امریکی امداد کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے کیا یہ کارروائیاں پاکستان اپنے وسائل سے نہیں کر سکتا؟۔ یا یہ ان دشمنوں کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے جو پاکستان سے باہر کے ہیں اور امریکا کے کسی مشن کو ناکام بناسکتے ہیں اور ان کے خاتمے کے لیے امریکا پاکستان کو مدد دے کر یہ چاہتا ہے کہ اس کے دشمنوں کو ختم کرنے میں پاکستان اس کی مدد کرے تو پھر ایسا کیوں نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان صاف صاف کہدے کہ جناب آپ شوق سے ہماری امداد بند کر دیں اور اپنے دشمنوں کو خود سنبھالیں؟۔ عدالتی زبان میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ: ’’بادی النظر‘‘ میں اس میں دو طرفہ غرض و غایت پوشیدہ ہے۔ امریکی مفادات کا تحفظ اس میں مضمر ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے میں بھر پور تعاون کرے اور پاکستان کا مفاد اس میں ہے کہ: ’’ڈالرز‘‘ پاکستان میں آئیں۔ لیکن ایک پہلو یہ بھی ہے کہ امداد رکنے کی صورت میں یا تو ’’شکم‘‘ کی آگ بھڑک اٹھے گی یا پھر پاکستان سے دفاع کا حق چھین کر امریکا دہشت گردوں کے خاتمے کے بہانے پاکستان کی حدود میں اسی طرح داخل ہونے کی کوشش کرے گا جس طرح وہ عراق میں داخل ہوا اور افغانستان پر قبضہ کر بیٹھا۔ یہ صورت حال پاکستان کے لیے بہت ہی پریشان کن ہے جس کی وجہ سے شاید پاکستان ہاں یا ناں کی پوزیشن میں نہیں۔
70 برس گزرجانے کے باوجود بھی ہمارے حکمرانوں نے ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بھیک مانگنے کی عادت شاید ہماری گھٹی میں پڑی ہوئی تھی جس کی وجہ سے حکمرانوں نے ہمیشہ یہی خیال کیا کہ دنیا انہیں ہمیشہ بھیک دیتی رہے گی اور اس بھیک سے وہ اپنے شکم کی آگ کو ٹھنڈا کرتے رہیں گے اور عوام کو وعدوں وعیدوں کے لارے لپے دے کر بہلاتے رہیں گے۔
جب صورت حال یہ ہو تو امریکا یا ڈونلڈ ٹرمپ کو برا بھلا کہنے کا کوئی جواز بنتا ہی نہیں۔ کوئی بھی ملک کسی ملک کو یہ نہیں کہتا کہ وہ بھیک مانگے، آپس میں ایک دوسرے کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالے، ایک دوسرے کے خون سے اپنی پیاس بجھائے۔ سیاست چمکانے کے لیے کشتوں کے پشتے لگادے، لوگوں کو لاپتا کرے اور عدالتوں سے ماورا کارروائیوں کے ذریعے ان کا قتل عام کرے۔ حکومتوں کو استحکام دینے کے بجائے اس کو توڑے پھوڑے۔ کسی جنگ کو ملک کی سطح پر لڑنے کے بجائے لوگوں میں جذبہ جہاد کو پروان چڑھاکر ان کو محاذوں پر ہی نہیں دوسرے ملکوں کی حدود میں بھیجے اور جب مقاصد حاصل ہو جائیں تو ان کو فورسز میں ضم کرنے کے بجائے بے یارو مدد گار چھوڑ کر خود ان کا قلع قمع کرنا شروع کردے۔ پھر ان میں بھی ’’اچھے‘‘ اور ’’برے‘‘ کی تفریق کرکے کسی کی پرورش کرے اور کسی کو زمین میں دفن کر دینے کے منصوبے بنانا شروع کر دے۔ البتہ جب ایسی کوئی صورت حال ملک کے طول و عرض میں بن جاتی ہے تو پھر ملک دشمن طاقتیں ان سے بھرپور فائدہ اٹھاتی ہیں جو نظر آرہا ہے۔
یہی وہ حالات ہیں جن کا فائدہ اٹھا کر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے وضع کی جانے والی قومی سلامتی کی نئی حکمت عملی میں ایک بار پھر پاکستان سے بہتر تعلقات کو قائم رکھنے کے لیے ’’ڈو مور‘‘ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق امریکا کی سلامتی کی پالیسی کی نئی حکمت عملی میں جنوبی ایشیا کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ: ’’ہم پاکستان پر اس کی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جاری کوششوں میں تیزی لانے کے لیے دباؤ ڈالیں گے، کیوں کہ کسی بھی ملک کی شدت پسندوں اور دہشت گردوں کے لیے حمایت کے بعد کوئی بھی شراکت باقی نہیں رہ سکتی ہے‘‘۔ امریکا کی جانب سے کہا گیا ہے کہ: ’’ہم ایک مستحکم اور خود مختار افغانستان چاہتے ہیں اور ایک ایسا پاکستان جو اسے غیرمستحکم کرنے میں ملوث نہ ہو‘‘۔
یہ وہ زبان اور موقف ہے جو افغانستان اور بھارت کا ہے۔ گویا امریکا نے صاف صاف کہہ دیا کہ افغانستان میں جو بھی دہشت گردی ہو رہی ہے وہ اس کو کمزور کرنے کے لیے ہو رہی ہے اور یہ ساری کارروائیاں پاکستان کرا رہا ہے۔ چناں چہ ’’امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان مسلسل اس بات کا ثبوت دیتا رہے کہ وہ اپنے جوہری اثاثوں کا محافظ ہے‘‘۔ بی بی سی کے مطابق نئی امریکی نیشنل سیکورٹی اسٹرٹیجی میں پاکستان کے حوالے سے مزید کہا گیا ہے کہ: ’’جیسے جیسے پاکستان میں سیکورٹی صورت حال بہتر ہوتی جائے گی اور پاکستان یہ یقین دلاتا رہے گا کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے امریکا کی مدد کرتا رہے گا تو ہم اس کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے تعلقات بڑھائیں گے‘‘۔ امریکا کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ: ’’پاکستان کے اندر سے کام کرنے والے شدت پسندوں اور دہشت گردوں سے امریکا کو مسلسل خطرات لاحق ہیں‘‘۔
یہ سب کچھ اس لیے کہ ہم ’’ضعیف‘‘ ہیں جس کے متعلق حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ نے فرمایا کرتے تھے کہ: ’’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات‘‘۔ ہر کمزور کی سزا یہی ہے کہ اسے مرجانا چاہیے۔
ایمان داری سے بتائیے کہ کیا خود ہمارے ملک کے مقتدر حلقے، خواہ وہ سول حکمرانوں، چودھریوں، ملکوں، خانوں، وڈیروں اور سرداروں سے تعلق رکھتے ہوں یا عسکری حکمرانوں یا عسکری حلقوں سے منسلک ہوں، کیا وہ اس ملک کے غریبوں کو جینے کا حق دیتے ہیں؟، ان کو انسان سمجھتے ہیں اور ان کو اپنے برابر آنے کا موقعہ فراہم کرتے ہیں؟۔ جب اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اتنی درجہ بندیاں اور زیادتیاں ’’کمزوروں‘‘ کے ساتھ روا رکھی جاتی ہیں تو ہم نے یہ کیسے تصور کرلیا کہ دنیا کمزور ملکوں کو یہ موقع فراہم کرکے کہ وہ ان کی برابری پر اتر آئیں اور ان کے لیے وبال جان بن جائیں؟۔
بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ دوسری جانب امریکا کی جانب سے قومی سلامتی کے حوالے سے جاری ہونے والی نئی حکمت عملی میں کہا گیا ہے کہ: ’’امریکا انڈیا کے ساتھ اپنی اسٹرٹیجک شراکت داری کو مزید مضبوط کرے گا اور سرحدی علاقوں اور انڈین اوشن سیکورٹی میں اس کے قائدانہ کردار کی حمایت کرے گا‘‘۔ اس کو کہتے ہیں
کند ہم جنس باہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر باز با باز
یعنی طاقت طاقت ہی کا ساتھ دے گی۔ یہ وہی رویہ ہے جو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں افراد کا افراد کے ساتھ ہے۔ امیر امیر کے ساتھ کھڑا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ ملک کے جتنے بھی غریب غربا ہیں یا تو وہ مرجائیں یا ان کے غلام بن کر رہیں اور اپنے جینے کے لیے ان سے ہاتھ پھیلا پھیلا کر بھیک مانگتے رہیں۔ جس طرح یہ انداز اور طرز عمل ہمارے مقتدر حلقوں کا ہے بعینہٖ یہی سلوک دنیا کے طاقتور ممالک کا پاکستان سے ہے۔ ہم کبھی کسی کا دامن پکڑتے ہیں کبھی کسی کا۔ جب ہم ہیں ہی دست نگر تو کس منہ سے دنیا میں سر اٹھا کر جی سکتے ہیں اورکسی بھی بڑے یا چھوٹے ملک سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتے ہیں۔ ہم امریکا سے مایوس ہوئے تو چین کے دامن گیر ہو گئے لیکن ہوا یوں کہ: ’’چین اور روس کو صدر ٹرمپ نے امریکا کے معاشی غلبے کی راہ میں حائل ممالک قرار دیا ہے‘‘۔ یہی نہیں ساتھ ہی ساتھ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ: ’’ہم خطے میں انڈیا کی مالی معاونت بڑھانے میں اس کی حمایت کریں گے‘‘۔ شمالی کوریا کی حمایت پر بھی سخت تنقید کی گئی۔ قومی سلامتی کے دستاویز میں کہا گیا ہے کہ: ’’امریکا اب خلاف ورزی، دھوکا دہی یا معاشی حملے کو کسی طرح نظر انداز نہیں کرے گا‘‘۔ مزید چرکے پر چرکا یہ کہ: ’’ہم امریکا کے بڑ ے دفاعی پارٹنر انڈیا کے ساتھ اپنے دفاعی اور سیکورٹی کے تعاون میں توسیع لائیں گے اور ہم علاقے میں انڈیا کے بڑھتے ہوئے رشتے کی حمایت کرتے ہیں‘‘۔
یہ ساری باتیں محض اس لیے ہیں کہ ہم نے اپنے آپ کو ہر لحاظ سے غیرمستحکم کر لیا ہے۔ اپنے ہی لوگوں کو طاقت کے ذریعے کچلنے کی پالیسی نے اندرونی جڑیں کھوکھلی کرکے ملک کو خلفشار میں مبتلا کر دیا ہے اور معاشی عدم استحکام نے ملک میں چوروں، ڈاکوؤں، کرائیے کے قاتلوں کا اس قدر اضافہ کر لیا ہے کہ ملک کا سارا بجٹ ان کے خلاف کارروائیوں ہی میں خرچ ہو جاتا ہے۔ جب تک ملک کے عوام کو خوشحال نہیں بنایا جائے گا اور مقتدر حلقے لوٹ گھوٹ سے باز نہیں آئیں گے اس وقت تک کسی کو بھی امریکا یا کسی بھی ملک پر تنقید کرنے اور ان کو اپنے اندرونی معاملات کا ذمے دار قرار دینے کا کوئی اخلاقی جواز بنتا ہی نہیں۔ بہتر یہی ہے کہ اپنی کمزوریوں کا اعتراف کیا جائے اور لوٹم لاٹ سے اجتناب کر کے غربت کے خاتمے اور معاشی استحکام کی جانب قدم اٹھایا جائے بصورت دیگر ذلت و خواری کے علاوہ اور کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔