جنرل ضیاء الحق اور سیکولر دانش ور

422

انسان کی ذہنی اور علمی زندگی اس اعتبار سے خطرناک ہوتی ہے کہ علمی حقائق انسان کو کچھ بھی بنا سکتے ہیں۔ اقبال جیسے وسیع المطالعہ انسان کم ہوتے ہیں۔ اقبال کی ابتدائی عمر کا مطالعہ انہیں بتا رہا تھا کہ وطن پرستی ایک شاندار تصور ہے چنانچہ انہوں نے سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا کا نعرہ لگایا۔ اقبال کی یہ نظم اتنی خوبصورت ہے کہ نہرو اسے ہندوستان کا قومی ترانہ بنانا چاہتے تھے۔ اقبال نے صرف سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا کا نعرہ نہیں لگایا۔ انہوں نے ہمالہ پر بھی شاندار نظم لکھی۔ انہوں نے یہ تک کہہ دیا
خاک وطن کا مجھکو ہر ذرہ دیوتا ہے
مگر اقبال کا مطالعہ اور ذہنی ارتقا جاری رہا اور بالآخر انہوں نے وطن پرستی کے تصور کو زیادہ تخلیقی قوت اور دلائل کی زیادہ طاقت سے نام نہاد وطنیت کے تصور کو مسترد کردیا۔ انہوں نے صاف کہا۔
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
اس کے ساتھ ہی سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا کا نعرہ لگانے والے نے بالآخر واضح کردیا۔
چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
یہ صرف اقبال کا معاملہ نہیں۔ قائد اعظم بھی وطن پرست تھے اور کانگریس سے وابستہ تھے۔ یہاں تک کہ سروجنی نائڈو نے انہیں ہندو مسلم اتحاد کا سفیر قرار دیا ہوا تھا۔ وطن پرست کوئی جعلی شخصیت یا Fack Personailty نہیں تھے۔ ان کا مطالعہ، ان کا علم انہیں یہی بتا رہا تھا کہ ہندو اور مسلمان ایک قوم ہیں۔ مگر قائد اعظم کے اپنے بیان کے مطابق پہلی گول میز کانفرنس کے مشاہدے اور تجربے نے کانگریس اور ہندوؤں کے بارے میں قائد اعظم کے خیالات کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ خیالات و نظریات کی تبدیلی کوئی خوشگوار تجربہ نہیں ہوتا۔ انسان جن خیالات و نظریات کے ساتھ وقت گزارتا ہے ان سے اسے محبت ہوجاتی ہے، لیکن اگر انسان نئے حقائق کو تسلیم کرنے سے انکار کردے تو اس کا داخلی ارتقا رک جاتا ہے اور وہ زندگی کے ایک خاص عہد میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے سیکولر، لبرل اور سابق سوشلسٹ دانش ور ڈارون کے تصور کے مطابق بندر کی سطح سے بلند نہیں ہوپائے اور انہوں نے انسان بننے سے صاف انکار کردیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سیکولر، لبرل اور سابق سوشلسٹ دانش وروں کی عظیم اکثریت نے نئے حقائق کو ماننے سے انکار کردیا ہے اور وہ اپنی ’’پرانی عادتوں‘‘ سے چمٹے ہوئے ہیں۔
اس کی ایک مثال قائداعظم کے مذہبی یا سیکولر ہونے کی بحث ہے۔ سیکولر، لبرل اور سابق سوشلسٹ دانش وروں کا اصرار ہے کہ قائد اعظم ایک سیکولر رہنما تھے۔ اس سلسلے میں وہ قائد اعظم کی 11 اگست 1947ء کی ایک تقریر کا حوالہ دیتے ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ قائد اعظم نے اپنی تقریروں اور انٹرویو میں درجنوں مقامات پر اسلام، قرآن، سیرت طیبہؐ اور اسلامی تہذیب و تاریخ کے حوالے دے رکھے ہیں۔ ان تمام حوالوں کو دیکھا جائے تو کہا جائے گا کہ قائد اعظم ایک تقریر کے حوالے سے سیکولر مگر درجنوں تقاریر یا بیانات اور انٹرویوز کے حوالے سے ’’اسلامسٹ‘‘ ہیں۔ اصولی اعتبار سے سیکولر، لبرل اور سابق سوشلسٹ دانش وروں کو ان علمی حقائق کا ادراک کرکے مان لینا چاہیے کہ قائد اعظم بہرحال سیکولر نہیں ’’اسلامسٹ‘‘ تھے۔ مگر ڈھاک کے تین پات کے مطابق سیکولر اور لبرل دانش ور 70 سال سے جھوٹ بولے جارہے ہیں۔ وہ علم، تاریخ اور دلیل کو بے حرمت کیے جارہے ہیں، مزے کی بات یہ ہے کہ اپنے اس طرزِ عمل پر نہ وہ شرمندہ ہیں اورنہ وہ اس سلسلے میں معذرت کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ انسان کے خلاف صرف اس کے دشمن سازش کرتے ہیں مگر سیکولر، لبرل اور سابق سوشلسٹ دانش وروں کا طرزِ فکر و عمل بتاتا ہے کہ انسان خود بھی اپنے خلاف سازش کرسکتا ہے۔
سیکولر، لبرل اور سابق سوشلسٹ دانش ور صرف قائد اعظم کے حوالے سے جھوٹ اور ذہنی انجماد کا شکار نہیں، بلکہ ایک اور مسئلے کے حوالے سے وہ جھوٹ اور ذہنی ارتقا کے منکر بنے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے زاہدہ حنا کے ایک حالیہ کالم کا اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔ زاہدہ حنا لکھتی ہیں۔
اب سے 40 برس پہلے امریکااور ساری دنیا میں ’’روٹس‘‘ (Roots) کی دھوم تھی۔ الیکس ہیلی نے اس ناول کو لکھا اور پھر اسے ٹیلی ویژن پر قسط وار پیش کیا گیا۔ اس ٹی وی سیریل نے کروڑوں امریکیوں کے دل مٹھی میں لے لیے۔ ان کے پرکھوں نے سیاہ فاموں کے ساتھ جو کچھ کیا وہ اسے ٹیلی ویژن پر دیکھ رہے تھے۔ ناظر نے اس ٹیلی ویژن سیریل میں دکھائی جانے والی بہیمانہ سزاؤں کو جنرل ضیا الحق کے دور میں دی جانے والی سزاؤں سے جوڑ کر ہمارے پڑھنے والوں کے لیے اسے ایک جیتی جاگتی مثال بنادیا۔ ہم روٹس پڑھ رہے ہوں یا اسے ٹیلی ویژن اسکرین پر دیکھ رہے ہوں، اسے ہم جنرل ضیا الحق کے زمانے سے جوڑ کر دیکھ سکتے ہیں‘‘
(30 مئی ۔ ایکسپریس)
اسی اقتباس میں زاہدہ حنا نے سوشلسٹ دانش ور ناظر محمود کی ایک حالیہ کتاب پر تبصرہ کیا ہے اور انہوں نے ناظر محمود کی کتاب کو الیکس ہیلی کے ناول اور اس کے حوالے سے تیار ہونے والی ڈرامہ سیریل سے منسلک کرکے اس کی تعریف کی ہے۔ ہمیں جنرل ضیا الحق کے خلاف لکھتے ہوئے 27 سال ہوگئے۔ مزید 27 سال کی مہلت ملی تو ان میں بھی جنرل ضیا الحق کی شخصیت اور طرزِ حکومت پر تنقید جاری رہ سکتی ہے مگر ہمارے سیکولر، لبرل اور سابق سوشلسٹ دانش وروں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ جنرل ضیا الحق کا تذکرہ اس طرح کرتے ہیں جیسے وہ ہماری تاریخ کے ’’واحد فوجی آمر‘‘ ہوں۔ حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔ جنرل ایوب، جنرل یحییٰ اور جنرل پرویز مشرف بھی فوجی آمر تھے مگر چوں کہ یہ تمام جرنیل سیکولر یا لبرل تھے اس لیے سیکولر عناصر ان کا ذکر ہی نہیں کرتے۔ بلاشبہ جنرل ضیا لحق نے پریس پر پابندیاں لگائیں مگر یہ کام تو جنرل ایوب، جنرل یحییٰ اور جنرل پرویز مشرف نے بھی کیا۔ بلاشبہ جنرل ضیا الحق نے صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کو جیل میں ڈالا اور ان پر تشدد کیا۔ مگر یہ ’’نیک کام‘‘ تو جنرل ایوب، جنرل یحییٰ اور جنرل پرویز مشرف نے بھی کیا۔ بلکہ اس سلسلے میں ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف کا ریکارڈ تو جرنیلوں سے بھی زیادہ بدتر ہے۔ جے اے رحیم پیپلز پارٹی کے بانی تھے۔ معراج محمد خان بھٹو کے اولین ساتھیوں میں سے تھے مگر بھٹو نے ان دونوں کی تذلیل کی۔ انہیں جیل میں ڈالا اور ان پر تشدد کرایا۔ انہوں نے جماعت اسلامی کے رہنما جان محمد عباسی کو محض اس لیے اغوا کرایا کہ وہ بھٹو کے خلاف انتخابات لڑ رہے تھے۔ بھٹو نے جان محمد عباسی پر تشدد کا جو طریقہ استعمال کیا وہ اتنا ہولناک ہے کہ اسے لکھنا بھی آسان نہیں۔ البتہ کہا جاسکتا ہے کہ امریکا نے گوانتاناموبے میں مسلم قیدیوں کے ساتھ جو سلوک کیا جان محمد عباسی کے ساتھ کیا جانے والا سلوک بھی کئی حوالوں سے ویسا ہی تھا۔ میاں محمد نواز شریف صحافیوں پر تشدد تو نہیں کراتے البتہ وہ بڑے بڑے صحافیوں اور کالم نگاروں کے قلم کو خرید لیتے ہیں اور صحافیوں کو طوائفوں سے بدتر سطح پر کھڑا کردیتے ہیں۔ طوائفیں اپنا جسم بیچتی ہیں اور میاں نواز شریف کے لیے لوگ اپنی روح، اپنا ایقان یعنی اپنا Conviction بیچتے ہیں جو جسم فروشوں سے زیادہ بدتر بات ہے۔ اس لیے کہ بہت سی طوائفیں اپنا جسم فروخت کرتی ہیں اپنی روح نہیں۔ مگر سیکولر، لبرل اور سابق سوشلسٹ دانش ور میاں صاحب کے ایجاد کے ہوئے ’’جبر‘‘ کا ذکر بھی نہیں کرتے۔ انہیں جبر یاد آتا ہے تو صرف جنرل ضیاء الحق کا اور جنرل ضیاء کے جبر کو فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔ مگر ایمانداری یہ ہے کہ جنرل ضیا کے جبر کے ساتھ باقی فوجی اور سول آمروں کے جبر کا بھی ذکر کیا جائے۔
سیکولر اور لبرل دانش وروں کے جھوٹ کی سطح کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ ناظر محمود صاحب نے اپنی کتاب میں جنرل ضیا کے ’’ظلم‘‘ کو روٹس میں دکھائے جانے والے ’’ظلم‘‘ سے منسلک کردیا ہے۔ کیا کوئی اندازہ کرسکتا ہے کہ ناظر محمود اور زاہدہ حنا نے اس سلسلے میں کس درجے کی شیطنیت کا مظاہرہ کیا ہے؟ ارے بھئی امریکا کی تاریخ نسل کشی کی تاریخ ہے۔ امریکا کی ممتاز دانش ور سوسن سونٹیگ نے کہا ہے کہ امریکا نسل کشی پر کھڑا ہوا ہے۔ نسل کشی بھی کیسی؟ امریکا کے ممتاز دانش ور مائیکل مان نے اپنی تصنیف Dark side of the democracy میں کہا ہے کہ ’’Americas‘‘ میں سات سے دس کروڑ لوگوں کو مارا گیا۔ امریکا کے ایک اور ممتاز دانش ور Howard Zim نے اپنی تصنیف A people’s History of the United States میں سفید فاموں کے ہاتھوں ریڈ انڈینز کی نسل کشی پر دستاویزی شہادتوں کے ذریعے روشنی ڈالی ہے۔ خود سیاہ فاموں کو امریکا میں بڑے پیمانے پر نسل کشی کے تجربے سے گزارا گیا ہے۔ سیاہ فاموں کو دو سو سال تک انسان ہی نہیں سمجھا گیا۔ 1960ء کی دہائی تک امریکا کے شراب خانوں اور چائے خانوں پر لکھا ہوتا تھا۔ یہاں کتوں اور کالوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا جنرل ضیاء الحق نے بھی کروڑوں یا لاکھوں مقامی ریڈ انڈینز یا سیاہ فاموں کو مارا ہے؟ کیا انہوں نے کروڑوں یا لاکھوں لوگوں کی نسل کشی کی ہے؟ جنرل ضیاء الحق نے دوچار صحافیوں کو قید کیا یا کوڑے لگوائے،بُرا کیا۔ اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے لیکن یہ نیک کام تو بہ انداز دیگر بھٹو صاحب نے بھی کیا۔ چناں چہ جنرل ضیاء کی مذمت کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو کی مذمت بھی ہونی چاہیے۔ جنرل ضیاء نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی بہت برا کیا مگر اس پھانسی کی پشت پر امریکا کا بھی ہاتھ تھا۔ اس آمریت کا جس کے خلاف پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے دوچار نعرے لگائے تو بے نظیر بھٹو نے اسٹیج سے منع کردیا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک بے نظیر بھٹو اپنے والد کے ایک قتل کے ایک قاتل امریکا کی ’’ڈارلنگ‘‘ بن کر اُبھر چکی تھیں۔ آخر یہ کیا شعور ہے جو جنرل ضیاء کی آمریت کی مذمت تو کرتا ہ مگر اس امریکا کی آمریت کی مذمت نہیں کرتا جس نے بھٹو کی برطرفی اور پھانسی میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سیکولر اور لبرل دانش وروں کی نظر میں جنرل ضیاء کا اصل جرم فوجی آمر ہونا نہیں بلکہ ’’مذہبی شخص‘‘ ہونا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو جنرل ضیاء کی آمریت کی مذمت کرنے والے دیگر فوجی اور سول آمریتوں کی بھی مذمت کرتے اور ان آمریتوں کو بھی امریکا میں ہونے والی نسل کشی کے ساتھ منسلک کرتے۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک بے نظیر بھٹو اپنے والد کے ایک قتل کے ایک قاتل امریک کی ’’ڈارلنگ‘‘ بن کر اُبھر چکی تھیں۔ آخر یہ کیا شعور ہے جو جنرل ضیاء کی آمریت کی مذمت تو کرتا ہ مگر اس امریکا کی آمریت کی مذمت نہیں کرتا جس نے بھٹو کی برطرفی اور پھانسی میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سیکولر اور لبرل دانش وروں کی نظر میں جنرل ضیاء کا اصل جرم فوجی آمر ہونا نہیں بلکہ ’’مذہبی شخص‘‘ ہونا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو جنرل ضیاء کی آمریت کی مذمت کرنے والے دیگر فوجی اور سول آمریتوں کی بھی مذمت کرتے اور ان آمریتوں کو بھی امریکا میں ہونے والی نسل کشی کے ساتھ منسلک کرتے۔