سمندر پار پاکستانیوں کی محرومی

225

سمندر پار پاکستانیوں کی اپنے وطن میں ہونے والے انتخابات میں شرکت کا مسئلہ برسوں سے اٹکا ہوا ہے اور کئی سیاسی جماعتوں کے وعدوں کے باوجود ان پاکستانیوں کو یہ حق نہیں ملا۔ بے نظیر کی حکومت میں جب مسلم لگ ن حزب اختلاف میں تھی اس وقت یہ دعویٰ کیا گیا کہ ہم جب اقتدار میں آئیں گے تو سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیں گے۔ ن لیگ کو دوسری مرتبہ اقتدار ملا لیکن اس سمت میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی آخر 1999ء میں خود میاں نواز شریف ’’سمندر پار پاکستانی‘‘ ہوگئے۔ 2013ء میں ایک بار پھر تقدیر نواز مسلم لیگ پر مہربان ہوئی اور ن لیگ نے اپنے اقتدار کے 5 سال پورے کرلیے مگر سمندر پار پاکستانی تکنیکی رکاوٹوں کا شکار رہے اور خود حکومت نے بھی کوئی قدم نہیں اٹھایا ورنہ تمام رکاوٹیں دور ہوسکتی تھیں۔ برسر اقتدار جماعتوں کو نجانے کس بات کا خوف لاحق رہا، شاید یہ کہ ان پاکستانیوں کا ووٹ ان کے خلاف نہ جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان سے باہر رہنے والے پاکستانی نہ صرف اپنے ملک کے حالات سے زیادہ با خبر ہوتے ہیں بلکہ وطن میں رہنے والوں کے مقابلے میں انہیں ا پنے وطن کی زیادہ فکر ہوتی ہے۔ دوسری طرف آج کل ترکی میں انتخابات ہورہے ہیں اور حکومت نے ترکی کے باہر رہنے والے شہریوں کو ووٹ کا حق دے دیا ہے چنانچہ یورپ کے کئی شہروں میں ترک رائے دہندگان کی قطاریں دیکھی جاسکتی ہیں۔ جن پاکستانیوں کے پاس پاکستان کا شناختی کارڈ ہے ان کا ووٹ حاصل کرنا کچھ مشکل نہیں اب گزشتہ جمعرات کو عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے فیصلہ کیا ہے کہ 79 لاکھ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے معاملے کی سماعت کے لیے 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد کوئی تاریخ مقرر کردی جائے۔ یعنی ان انتخابات میں بھی وہ ووٹ دینے کے حق سے محروم رہیں گے، بعد میں دیکھا جائے گا۔ عدالت عظمیٰ کو بتایاگیا ہے کہ وقت کی قلت اور خصوصی طور پر ڈیزائن کردہ سافٹ ویئر کی عدم دستیابی اور دہری جانچ پڑتال کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے فی الوقت تو کچھ نہیں ہوسکتا، رائے دہندگان کی فہرست میں تبدیلی بھی ممکن نہیں۔ عدالت عظمیٰ نے مذکورہ فیصلہ عمران خان اور شہریوں کے ایک گروپ کی طرف سے دائر کردہ درخواستوں کے جواب میں دیا ہے۔ ان درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں کو ان کے جمہوری حق سے محروم رکھنے کا مطلب ہے کہ حکومت اپنی آئینی ذمے داریاں پوری کرنے میں ناکام رہی ہے۔ یہ مسئلہ کوئی آج کا نہیں، کم از کم 25 سال پرانا ہے اور اس پر عمل نہ کرنے کے لیے جو بہانے آج بنائے جارہے ہیں وہ اس طویل عرصے میں دور ہوسکتے تھے مگر اصل مسئلہ نیت کا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان کا کہناہے کہ عدالت نے سمندر پار پاکستانیوں کو ان کا حق دینے کی پوری کوشش کی ہے لیکن اب وقت نہیں رہا۔ دیکھنا ہے کہ 25 جولائی کے بعد عدالت عظمیٰ اس مقدمے کا کیا فیصلہ کرتی ہے۔ یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ رکاوٹیں کس کی طرف سے ڈالی جاتی ہیں اور اس کا سبب کیا ہے؟ یہ بھی ملحوظ رہے کہ سمندر پار پاکستانی اپنے ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔