پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کا مخمصہ

310

خدا خدا کرکے تو پنجاب اور بلوچستان کے لیے نگران وزراء اعلیٰ کا فیصلہ ہوا ہے لیکن مسلم لیگ ن نے پنجاب کے لیے معروف صحافی حسن عسکری کے انتخاب کو تسلیم نہ کرتے ہوئے سخت احتجاج شروع کردیا ہے، ن لیگ کے رہنماؤں کا کہناہے کہ پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری مسلم لیگ ن کے خلاف مضامین لکھتے رہے ہیں اور ان کا جھکاؤ پاکستان تحریک انصاف کی طرف ہے۔ حسن عسکری کا نام بھی تحریک انصاف نے دیا تھا۔ تحریک انصاف نے تو ایاز امیر کا نام بھی دیا تھا جو ناؤ نوش کی شہرت رکھتے ہیں اور شراب پر پابندی کے خلاف ہیں۔ وہ بھی ایک صحافی ہیں اور ان کے مقابلے میں حسن عسکری کو غنیمت سمجھا جاسکتا ہے۔ حسن عسکری کا انتخاب الیکشن کمیشن نے کیا ہے۔ اس کی نوبت بھی تب آئی جب پنجاب کی حزب اقتدار اور حزب اختلاف کسی فیصلے پر نہیں پہنچ سکیں۔ یہ سیاست دانوں کی ناکامی ہے کہ الیکشن کمیشن کو فیصلہ کرنا پڑا اس سے پہلے پنجاب کے لیے نگران وزیراعلیٰ کے لیے تحریک انصاف کئی پینترے بدلتی رہی اور ایک نام دے کر اس سے پیچھے ہٹ گئی۔ تحریک انصاف کے دیے ہوئے نام ناصر محمود کھوسہ پر شہباز شریف اور قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید میں اتفاق ہوچکا تھا اور شہباز شریف نے وہ نام گورنر کو بھجوا بھی دیا تھا مگر عمران خان نے نام واپس لے لیا۔ عمران خان کا کہناتھا کہ نام واپس لینا کوئی مسئلہ نہیں، غیر جانبداری ضروری ہے۔لیکن مکمل غیر جانبدار تو کوئی بھی نہیں ہوسکتا۔ 2013ء میں نواز لیگ نے پنجاب کے لیے نجم سیٹھی کا انتخاب کیا تھا اس پر عمران خان کو اعتراض تھا اور نجم سیٹھی پر 35 پنکچر لگانے کا الزام لگایا تھا یعنی 35 نشستوں پر نجم سیٹھی نے دھاندلی کروائی۔ یہ الزام کبھی حقیقت کا روپ نہیں دھارسکا۔ بہر حال نجم سیٹھی کے نام پر عمران خان کو اعتراض تھا تو اب یہ حق نواز شریف اور ان کی پارٹی کا ہے۔ ایک صاحب کہتے ہیں کہ جو ایک اسکول نہیں چلاسکا وہ حکومت کیا چلائے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ ن لیگی حکمرانوں نے تو بڑے بڑے کالج اور جامعات چلائی ہیں۔ شاہد خاقان عباسی ایل این جی کے معاملے میں زیر تفتیش ہیں جس میں ملک کو مبینہ طور پر دو ارب ڈالر کا نقصان پہنچا۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے کسی فیصلے سے ظاہر ہے کہ سیاست دان یہ مسائل حل نہیں کرسکے پنجاب اور بلوچستان کی پارلیمانی کمیٹیاں بھی فیصلہ کرنے میں ناکام رہیں چنانچہ قانون کے مطابق الیکشن کمیشن کو فیصلہ کرنا پڑا۔ میاں نواز شریف کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے اور حسن عسکری خود اس ذمے داری سے دستبردار ہوجائیں گویا پھر نئے سرے سے کسی نگران وزیراعلیٰ کی تلاش ہوگی اور معمول کے مطاق کوئی فیصلہ نہیں ہوسکے گا۔