کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج میں خلاف قانون کروڑوں کی مشینیں خریدی گئیں

210

کراچی (رپورٹ: محمد انور) بلدیہ عظمیٰ کے کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج (کے ایم ڈی سی ) میں مختلف غیر ضروری سامان کی خریداری میں سرکار کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچانے اور دہری شہریت کے حامل ڈائریکٹر اکاؤنٹ اور 2 پروفیسرز کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔ دہری شہریت رکھنے والے ان افراد پر خلاف قانون بیرون ملک دورے کرنے کا بھی الزام ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق کے ایم ڈی سی کے مالی اور انتظامی امور میں بے قاعدگی پر قومی احتساب بیورو (نیب ) نے تحقیقات شروع کردی ہے۔ دہری شہریت کے اساتذہ پر الزام ہے کہ وہ ہر سال بغیر اجازت چھٹیوں پر بیرون ملک چلے جاتے ہیں اور کے ایم سی سے تنخواہ بھی پوری وصول کرتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق کے ایم ڈی سی میں 2014ء میں 11 کروڑ 50 لاکھ روپے کی لاگت سے ایسی مشینیں خریدی گئی تھیں جن کی کالج کو ضرورت نہیں تھی۔ان میں انڈواسکوپی برین آٹو اسکوپ ائر، 2 عدد ایکسرے مشینیں جن میں 2 او پی جی ڈینٹل ایکسرے اور ہائیڈروانسنٹور مشینیں شامل تھیں جنہیں عباسی شہید اسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔ معلوم ہوا ہے کہ یہ تمام مشینیں بغیر ٹینڈر اور دیگر قوانین کے خلاف خریدی گئیں بعدازاں یہ تمام مشینیں چل ہی نہیں سکیں۔ کروڑوں روپے کی اس خریداری میں اس وقت کے ایڈمنسٹریٹر ثاقب سومرو ، کے ایم ڈی سی کے اس وقت کے پرنسپل جو کہ الطاف حسین کے معالج بھی تھے ، کے ایم ڈی سی کی سینئر ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن اور ڈائریکٹر اکاؤنٹس براہ راست ملوث ہیں۔ نیب کے ذرائع کا کہنا ہے کہ کالج کے ڈائریکٹر اکاؤنٹس رفیع مرشد جو کہ مبینہ طور پر کنیڈین نیشنلٹی بھی رکھتے ہیں ان دنوں پھر ڈیوٹی سے غیر حاضر ہیں تاہم نیب نے ان کو ایک ہفتے میں طلب کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق نیب کالج کی ایک خاتون پروفیسر ریحانہ شاہ کے حوالے سے بھی اس الزام کی تحقیقات کررہا ہے کہ وہچند سال قبل 5 سال تک ڈیوٹی سے غیر حاضر رہیں بعد ازاں شوکاز نوٹس کے اجراء کے بعد مبینہ طور پر جعلی میڈیکل سرٹیفکیٹ پیش کرکے طبی بنیادوں پر رخصت منظور کروالیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ پروفیسر امریکا کی نیشنلٹی رکھتی ہیں جبکہ کالج کے موجودہ پرنسپل بی ڈی ایس ڈاکٹر محمود حیدر بھی مبینہ طور پر دہری شہریت رکھتے ہیں۔ نیب کے ذرائع کا کہنا ہے کہ کے ایم ڈی سی سنگین نوعیت کی خلاف ورزیوں کی جاری تحقیقات سے مزید اہم انکشافات ہونے کے امکانات ہیں۔