اسلام اور ترقی

530

ہمار دور ترقی کا دور ہے۔ چناں چہ ہر شخص ترقی کرنا چاہتا ہے۔ جس طرح ایک خاص کیفیت کے شکار انسان کو خودکشی سے نہیں روکا جاسکتا، اسی طرح آج کے انسان کو ترقی کرنے سے نہیں روکا جاسکتا۔ اس میں بچے، جوان، ادھیڑ اور بوڑھے کی کوئی تخصیص نہیں۔ یہاں تک کہ زندوں اور مردوں کی بھی کوئی تخصیص نہیں۔ آج کا انسان مرتے وقت بھی یہی سوچتا ہے کہ کاش وہ مزید ترقی کرسکتا۔
ہمارے محترم وزیراعظم صاحب بھی اس سلسلے میں کئی بیانات دے چکے ہیں۔ وہ کہہ چکے ہیں کہ وہ پاکستان کو جاپان بنا کر ہی دم لیں گے۔ ایک موقع پر انہوں نے فرمایا کہ وہ پاکستان کو کوریا بنا کر چھوڑیں گے۔ خیر وہ جاپان کہیں یا کوریا، مطلب ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ وہ پاکستان کو ترقی یافتہ ملک اور پاکستانی قوم کو ایک ترقی یافتہ قوم بنانا چاہتے ہیں۔
خیر ہمارے وزیراعظم ہی پر کیا موقوف ہے۔ یہ بات تو ہمارے محترم علما کرام بھی کہتے ہیں اور بڑی شدومد سے کہتے ہیں اور کیوں نہ کہیں اسلام بھی ترقی کا مخالف تو نہیں ہے۔ کم سے کم ہمارے علمائے کرام کے موقف سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے۔
اسلام کسی چیز کو رد نہیں کرتا۔ وہ انسان کے تمام فطری مطالبات کو تسلیم کرتا ہے اور ان کے اظہار کی نظری اور عملی صورتوں کے اظہار کی اجازت دیتا ہے۔ اس کی ابدی صداقت کے دائرے میں دین و دنیا دونوں موجود ہیں۔ مگر کیا یہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں؟ یا ان کی حیثیت اور ان کا مقام متعین ہے؟ یعنی ایک رہنما اور ایک پیچھے چلنے والا یعنی مقلد؟
ان دونوں کے ساتھ ساتھ چلنے کا تو سوال ہی نہیں ہے۔ کیوں کہ ساتھ ساتھ تو وہی چل سکتے ہیں جو ہم مرتبہ ہوں۔ اور یہ دونوں ہم مرتبہ تو خیر کیا ہوں گے ان کے درمیان تو موازنہ کرنا بھی نری جہالت ہے۔ البتہ دوسری بات ابتدائی مرحلے میں کچھ ٹھیک ہے یعنی یہ کہ ان کا مقام متعین ہے، دین آگے اور دنیا پیچھے۔ مگر اس سے اگلے مرحلے پر یہ تفریق ختم ہوجاتی ہے۔ دنیا دین میں جذب ہو جاتی ہے اور صرف دین باقی رہ جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں انسان مومن بن جاتا ہے مگر کیا دنیا کے خاتمے یا اس کے دین میں جذب ہونے کے معنی یہ ہیں کہ انسان مسجد میں بیٹھ جاتا ہے؟ نہیں! بلکہ یہ پوری دنیا ہی اس کے لیے مسجد بن جاتی ہے۔ اور اس کا ہر کام عبادت۔ اس کی مزید وضاحت دیکھنی ہو تو علما کرام کی تشریحات کا مطالعہ کیجیے۔ کیوں کہ میں اپنے جہل کے باعث اس کی وضاحت کا اہل نہیں ہوں۔
خیر ہم پھر بحث کے بنیادی سوال کی جانب لوٹتے ہیں۔ اسلام بھی ترقی کا مخالف نہیں ہے۔ مگر ترقی سے مراد کیا ہے؟
موجودہ دنیا نے ترقی کے کئی پیمانے بنائے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک پیمانہ تو یہ ہے کہ کسی ملک کی سالانہ فی کس آمدنی کا جائزہ لیں۔ ایک پیمانہ یہ ہے کہ ہم اس ملک کے عوام کے معیارِ زندگی کا تجزیہ کریں اور یہ دیکھیں کہ وہاں کے لوگوں کو زندگی کی کون کون سی آسائشیں میسر ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ اور بھی پیمانے ہیں۔ اور ایک پیمانہ ان تمام چیزوں کے مجموعے سے وجود میں آتا ہے۔
اچھا یہ پیمانہ ہمیں مغرب کے موجودہ صنعتی انقلاب نے مہیا کیا ہے اور ہم اس کی بنیاد پر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کون سا ملک یا قوم ترقی کے کس درجے پر ہے۔ اس پیمانے کی اہم ترین بات یہ ہے کہ یہ اوّل و آخر مادی آسائشوں سے تشکیل پاتا ہے۔ خیر اس سے کیا فرق پڑتا ہے اسلام مادی زندگی کی نفی تو نہیں کرتا۔ ہیں نا!؟؟
اچھا اب جب ہمارے وزیراعظم، مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے رہنما یہ فرماتے ہیں کہ ہمیں بھی ترقی کرنی ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارا معیارِ زندگی ترقی یافتہ ملکوں یعنی جاپان، امریکا یا کوریا وغیرہ کے برابر ہو۔ اس کے مزید معنی یہ ہیں کہ ہماری فی کس آمدنی جاپان کی فی کس آمدنی کے برابر ہو۔ ہمارے عوام کے 80 فی صد حصہ کے پاس ذاتی کاریں ہوں۔ سب کے پاس ٹی وی، فریج، ایئرکنڈیشن، وی سی آر، غرض یہ کہ وہ تمام چیزیں ہوں جو جاپان کے عوام کے پاس ہیں۔
اچھا ٹھیک ہے ہم یہ تمام آسائشیں حاصل کرکے ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ آئیے آپ بھی کھڑے ہوجائیں۔ مگر کھڑا ہونے سے پہلے دوچار سوالات پر غور کرلیجیے۔
امریکا اور جاپان کی اس ترقی کا ایک فلسفیانہ، مذہبی اور تہذیبی پس منظر ہے۔ یعنی یہ ترقی ان کے مجموعی تصور زندگی اور تصور کائنات کے بطن سے پیدا ہوئی ہے۔ پھر یہ بھی ذرا دھیان میں رہے کہ اس ترقی کو انہوں نے بہت سی چیزیں کھو کر حاصل کیا ہے۔ مثلاً یہی مذہب وغیرہ اور اگر کسی نے ترقی سے پہلے اسے نہیں کھویا تو ترقی کے بعد کھودیا۔ تو کیا ہم بھی اس کے لیے تیار ہیں؟؟ مگر ہم اس کے لیے تیار کیوں ہوں؟ ان کے تو مذاہب ہی منسوخ شدہ تھے وہ بھلا ان کو اپنی گرفت میں کیسے رکھ سکتے تھے۔ مگر ہمارے پاس تو اس کائنات کا آخری سچا اور ہر طرح کی تحریف سے مبرا دین ہے اور ہمیں اس سے بے پناہ محبت بھی ہے پھر بھلا ہم اسے کیوں کھونے لگے؟ ہم تو دین کے بھی مزے لیں گے اور دنیا کی آسائشوں کے بھی۔ بھلا یہ آسائشیں ہمارے لیے کیا خطرہ ہوں گی!!! خیر ہم اس پر بعد میں گفتگو کریں گے پہلے ایک اور عملی سوال پر نظر ڈال لیں۔
جاپان کے لوگوں نے یہ ترقی یونہی حاصل نہیں کی۔ وہاں کا ہر آدمی چوبیس گھنٹے میں سے اٹھارہ گھنٹے کام کرتا ہے اور برسوں سے مسلسل کام کررہا ہے، تب انہوں نے ترقی کی یہ منزل حاصل کی ہے۔ اچھا ہم فرض کرلیتے ہیں کہ آپ بھی چوبیس میں سے اٹھارہ گھنٹے ٹی وی بنانے میں، کار بنانے میں یا کوئی اور کام کرنے میں صرف کرتے ہیں۔ اب ذرا غور کیجیے کہ آپ اپنی ایک دن کی زندگی کا یہ اتنا بڑا وقت کسی ایسے کام میں صرف کریں گے تو بجائے خود یہ عمل آپ کے مذہب کی روح سے کتنا ہم آہنگ ہوگا؟ کیوں کہ آپ کا یہ پورا وقت صرف پیسہ کمانے میں صرف ہورہا ہے۔ میں دہراتا ہوں۔
’’صرف پیسہ کمانے میں‘‘ یہ تو ایک سوال ہوا۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ آپ کے خیال میں ایک دن میں اٹھارہ گھنٹے کام کرنے کے نتیجے میں آپ کی روح، نفس اور جسم کا جو باہمی ربط ہے یا جو Working Relationship ہے اس پر اس کا کیا اثر ہوگا؟؟ کیا آپ کے احساساتی، نفسیاتی اور جذباتی نظام میں کوئی خلل واقع نہیں ہوگا؟؟
اب ذرا اوپر اُٹھائے گئے سوال کا رُخ کرتے ہیں۔ ذرا اس بات پر غور کیجیے کہ مادی زندگی کی آسائشیں انسان کی شخصیت پر کیا اثر ڈالتی ہیں؟؟ غرور، تکبر، رعونت، بے حسی، کیا یہ سب پر آسائش زندگیاں گزارنے والوں کی نشانیاں نہیں ہیں؟
یہ خیال بہت عام ہے کہ صرف روح ہی جسم پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہے جسم بھی روح پر اثر ڈالتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جسموں کی آسائش نے روحوں کو بیمار کیا ہے۔ طاؤس و رباب آخر۔
بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام ان کے لیے زرہ بکتر کا کام دیتا رہے گا۔ یہ ٹھیک ہے کہ زرہ بکتر آپ کو تیروں اور تلواروں سے بچالے گا۔ مگر آپ گہرے پانی میں اُتریں گے تو زرہ بکتر بھی آپ کے بدن کو گیلا ہونے سے نہیں بچا سکے گا۔ ویسے زرہ بکتر کو پہننا بھی تو ایک مفروضہ ہے۔
اب ہم ذرا اپنی تاریخ سے کچھ مثالیں لیتے ہیں۔ خیر پیغمبروں کا تو ذکر ہی کیا وہ تو کائنات کی عظیم ترین ہستیاں ہیں مگر ذرا ان کے نور کے دائرے میں پرورش پانے والے لوگوں پر نظر ڈالیے۔ انہوں نے اپنے لیے کیا پسند کیا؟
کیا آپ کا ایمان سیدنا عمر فاروقؓ سے زیادہ مضبوط ہے؟ نہیں نا۔ اگر وہ چاہتے تو ذاتی طور پر خاصی ترقی کرسکتے تھے۔ وہ سمجھ سکتے تھے کہ میرا ایمان تو بڑا مضبوط ہے، دُنیا کی یہ آسائشیں میرا کیا بگاڑ لیں گی۔ مگر انہوں نے دُنیا کی آسائشوں سے منہ موڑے رکھا۔ دیگر ہزاروں صحابہؓ کا بھی یہی حال تھا آخر کیوں؟
ہمارے بے شمار علما ایسے گزرے ہیں جن کے لیے دنیا کمانا کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ امام غزالیؒ نے اپنے مال و دولت اور دربار کی عزت و تکریم تک پر ٹھوکر مار دی اور فقر کی زندگی اختیار کرلی۔
ہمارے بے شمار صوفیائے کرام کی زندگیاں بھی اسی نہج پر گزری ہیں۔ کیوں؟ کیا وہ دین و دنیا کی یکجائی کے تصور کو نہیں سمجھتے تھے؟؟ یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ ہم ان برگزیدہ ہستیوں کی عبادت اور ریاضت کا تذکرہ خوب کرتے ہیں مگر ان کی دنیا سے بے رغبتی کا ذکر نہیں کرتے یا اتنا نہیں کرتے جتنا کہ کرنا چاہیے۔
تو اب ذرا سوچیے کہ اسلام اور ترقی کا باہمی تعلق کیا ہے؟ اور آپ کس طرح کی ترقی کرنا چاہتے ہیں؟؟ جاپانی؟ امریکی؟ کوریائی؟ اور ذرا اسلامی انقلاب کا خواب دیکھنے والے بتائیں کہ ان کی اسلامی ریاست میں کیسی ترقی ہوگی؟ اور اس کا رُخ کیا ہوگا؟؟ بھئی اسلام ایٹم بم کے ماڈل کی طرح اسلامی ترقی کا بھی تو کوئی ماڈل ہوگا آپ کے پاس؟؟