پرویز مشرف کو چھوٹ

326

سابق آمر اور آئین کی شق 6 پامال کرنے کے جرم میں غداری کے الزام کا سامنا کرنے والے مفرور پرویز مشرف آج کل بڑی اونچی ہواؤں میں ہیں۔ ان کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ معطل یا منسوخ ہوچکا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ یہ کوئی مسئلہ نہیں، سب ٹھیک ہوجائے گا۔ موصوف کو اب بھی یہ خوش فہمی ہے کہ وہ پاکستان میں بڑے مقبول ہیں اور کئی حلقوں سے انتخاب لڑنے جارہے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے ایک عجیب فیصلہ دیا ہے کہ پرویز مشرف آئندہ ہونے والے انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں، وہ پاکستان آئیں انہیں کوئی گرفتار نہیں کرے گا۔ کیا پرویز مشرف پاکستان آئیں گے، ابھی تک تو یہ مشکوک لگ رہا ہے۔ بی الفرض وہ آ بھی گئے تو شناختی کارڈ نہ ہونے پر کیا کاغذات نامزدگی جمع کراسکیں گے اور کیا پاسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے ملک سے باہر جا پائیں گے؟ یہ باتیں پرویزمشرف کی نظر میں بھی ہیں لیکن انہیں اطمینان ہے کہ ان کے لیے سب ٹھیک ہوجائے گا۔ دیکھنا ہے کہ کیا وہ جرأت کا مظاہرہ کرکے پاکستان آسکیں گے۔ وہ دبئی میں بیٹھے ہوئے اب بھی پاک فوج کو اکسارہے ہیں کہ سولجر کا کام صرف سرحدوں کی حفاظت کرنا نہیں بلکہ ان کے مطابق، پاکستان خطرے میں ہو تو اس سے آگے بڑھ کر قدم اٹھانا چاہیے جیسا کہ انہوں نے 1999ء میں اٹھایا۔ موصوف کہتے ہیں کہ جمہوریت وغیرہ صرف ڈھونگ ہے۔ اگر اس سے ملک تباہ ہورہا ہو اور عوام بدحال ہورہے ہوں تو جمہوریت کو ایک طرف رکھ دینا چاہیے، بقول ان کے سب سے پہلے پاکستان۔ لیکن کیا جنرل صاحب یہ بتانا پسند کریں گے کہ انہوں نے اپنے 9 سالہ اقتدار میں ملک و قوم کے لیے کیا کارنامے سرانجام دیے۔ دعویٰ تو ان کا یہ رہا کہ انہوں نے سب سے بہتر جمہوریت دی ہے لیکن جمہوریت پر ان کا اعتبار ہی کہاں ہے۔ انہیں اب بھی یہ دعویٰ کہ فوج اقتدار میں آکر سب کچھ ٹھیک کرتی ہے مگر جمہوری حکومت آکر پھر تباہی پھیلادیتی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے انہیں واپس آکر انتخاب لڑنے کی جو اجازت دی ہے اس پر بجا طور پر اعتراض ہورہا ہے اور نا اہل قرار دیے گئے وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ پرویز مشرف پر غداری کا سنگین مقدمہ ہے ان کو عدالت نے انتخاب لڑنے کی ضمانت کیسے دے دی، آئین کدھر گیا؟ انہوں نے شکوہ دہرایا کہ مجھے تو تا عمر نا اہل قرار دے دیا اور غداری کے مجرم کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی جارہی ہے۔ اس اعتراض میں وزن تو ہے۔