25جولائی کو ہونے والے انتخابات کے انعقاد پر شکوک و شبہات کے بادل اب کچھ چھٹتے ہوئے نظر آرہے ہیں، لیکن عوام اب بھی کسی بھی انہونی یا حادثات کے نتیجے میں انتخاب کے بروقت انعقاد پر ذہنی طور پر بے یقینی کا شکار ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ نے کاغذات نامزدگی کو آئین کے مطابق بنانے کے لیے الیکشن کمیشن کو جو ہدایت کی تھی اس سے ایک تہلکہ مچ گیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو معطل کر کے انتخابات کے بروقت انعقاد کو یقینی بنادیا۔ معروف صحافی انصار عباسی نے لکھا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ تو بہت اچھا تھا لیکن اس کی ٹائمنگ غلط تھی پچھلے سات ماہ سے یہ کیس لاہور کی اعلیٰ عدلیہ میں سماعت کے لیے موجود تھا اگر یہی فیصلہ ایک ماہ قبل آجاتا تو شاید اس پر عملدرآمد ممکن ہو جاتا۔ کاغذات نامزدگی کا یہ فارم پارلیمنٹ نے تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے بنایا۔ ارکان قومی اسمبلی نے اپنی سہولت کی خاطر اس میں بہت سے سوالات سے جان چھڑائی ہے کہ قرض کتنا ہے نادہندہ تو نہیں ہیں یوٹیلیٹی بلز کے حوالے سے بھی کوئی سوالنامہ نہیں ہے آئین کی شق 62-63 کا بھی دباؤ نہیں ہو گا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ آنے والی اسمبلی بھی ایسی ہی ہوگی جیسی کے اب تک کی رہی ہے بس کچھ چہرے تبدیل ہو جائیں گے۔
جولائی میں ہونے والے انتخابات کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتیں اپنے طور پر تیاریاں تو کررہی ہیں لیکن اس مرتبہ امیدواروں کو اپنی انتخابی مہم کے دوران بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بالخصوص کراچی میں زیادہ مشکل صورت حال ہوگی شدید گرمی اور بجلی اور پانی کی پریشانیاں الگ سے۔ ابھی دو تین روز قبل پی ایس پی کے مصطفی کمال اور ان کے ایک ایم پی اے اورنگی ٹاؤن گئے وہاں عوام نے انہیں گھیر لیا پانی کے ترسے ہوئے لوگوں نے کہا کہ یہ لوگ ووٹ لینے تو آجاتے ہیں پھر ہمارا پانی ٹینکر مافیا کو بیچ دیتے ہیں بہر حال ان حضرات کو مشتعل افراد سے چھڑانے کے لیے پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ کراچی میں عوام کی بڑی تعداد پانی کے سلسلے میں بہت پریشان ہے اور مستقبل قریب میں یہ مسئلہ حل ہونے کے بجائے اور بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔ حال میں ہی ایئک اخبار میں ڈاکٹر فاروق ستار کا یہ بیان شائع ہوا ہے کہ مردم شماری میں کراچی کی آبادی فبہت کم دکھائی گئی ہے اس لیے ہم انتخابات کے بائیکاٹ کا سوچ رہے ہیں اور پھر ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کی کہ اس کا لندن والے بائیکاٹ سے تعلق نہیں ہو گا۔ ایم کیو ایم اس وقت جس انتشار کا شکار ہے اس میں وہ اپنے لیے کوئی محفوظ راستہ نکالنا چاہتی ہیں۔ جب سے ایم کیو ایم کی دہشت ختم ہوئی ہے تو ہر سیاسی پارٹی کے رہنماؤں نے کراچی سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے شہباز شریف نے بھی کہا ہے کہ وہ کراچی سے بھی انتخاب میں حصہ لیں گے۔ عمران خان پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں تحریک لبیک یا رسول اللہ بھی پر تول رہی ہے۔
دیگر پارٹیوں کا جائزہ لینے سے پہلے ضروری ہے کہ کراچی کے اہم اشوز کے حوالے کراچی کے شہری جماعت اسلامی کے اقدامات سے تو کسی حد تک مطمئن ہیں جماعت اسلامی برسوں سے کے الیکٹرک کے ظلم کے خلاف مہم چلا رہی ہے اسی طرح شناختی کارڈ کے حصول کے سلسلے میں جو مشکلات تھیں جماعت کی مہم کی وجہ کراچی کے عوام کو اس میں بہت سہولتیں ملی ہیں پھر ابھی پچھلے ہفتے پانی کے سلسلے میں واٹر بورڈ کے ایم ڈی کے دفتر کے سامنے دھرنا دیا گیا کارکنان نے وہیں روزہ افطار کیا اور وہیں تراویح کی نماز بھی ادا کی لیکن وہ جماعتیں جو پچھلے پچیس تیس سال سے جھولی بھر کر نوٹ اور ووٹ حاصل کرتی رہی ہیں انہوں نے ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے اس میں اضافہ کیا ہے اگر ایم کیو ایم چاہتی تو K-4پروجیکٹ کو اپنے دور میں مکمل کروا سکتی تھی لیکن اس منصوبے میں جان بوجھ کر تاخیر کی گئی اللہ اللہ کرکے اس پر کام شروع ہوا لیکن ا ب پھر اس پر کام روک دیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے مرکزی فنانس سیکرٹری نے اس منصوبے پر مزید رقم یہ کہہ کر دینے سے انکار کردیا کہ مردم شماری میں کراچی کی جو آبادی دکھائی گئی ہے اس لحاظ سے کراچی کو زیادہ رقم دی جاچکی ہے کراچی پورے ملک کو باسٹھ فی صد سے زیادہ ریونیو فراہم کرتا ہے جس سے پورے پنجاب میں ترقیاتی کام زور و شور سے ہو رہا ہے جب کے کراچی گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہو رہا ہے۔
شہباز شریف صاحب کس منہ سے کراچی میں الیکشن میں حصہ لینے کے لیے آرہے ہیں کراچی کا بیڑہ غرق کرنے میں تو ن لیگ کا سب سے بڑا ہاتھ ہے کہ انہوں نے پنجاب کو اپنا بیس کیمپ بنایا ساری توجہ اسی طرف تھی اور کراچی کو ایم کیو ایم کی دہشت حوالے کردیا کہ بوری بند لاشیں اور بھتا خوری کی وجہ کاروباری حضرات نے کراچی چھوڑ کر پنجاب کا رخ کیا اس طرح کاروباری سرمایہ بھی یہاں سے پنجاب چلا گیا۔ آج جو ن لیگ کراچی میں امن امان کاخود کریڈٹ لیتی ہے یہ اس کی منافقت ہے کراچی میں امن امان کے قیام کا سہرا فوج اور رینجرز کو جاتا ہے جنہوں نے قربانی دے کر کراچی میں امن قائم کیا۔ کراچی کی تباہی کی دوسری ذمے دار پی پی پی ہے۔ پی پی پی نے کراچی کے کماؤ پوت اداروں کو صوبہ سندھ میں لے لیا جس کی واضح مثال کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ہے جو اب سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کہلاتی ہے یعنی یہ کے بی سی اے سے ایس بی سی اے ہو گئی اور اس میں کرپشن کی جو ہوش ربا داستانیں سامنے آئی ہیں ان سے پورے ملک کے عوام واقف ہیں۔ پی پی پی نے کراچی کی ترقی کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔
آنے والے انتخابات میں ن لیگ، پی پی پی، تحریک انصاف، ایم کیو ایم بہادر آباد اور پی آئی بی گروپ، پی ایس اپی اور ایم ایم اے ہر سیٹ پر اپنے امیدواران کھڑی کریں گی دلچسپ بات یہ ہے کہ آج ہر پارٹی تنظیمی انتشار کا شکار ہے تحریک انصاف کراچی کے دفتر میں توڑ پھوڑ کی خبریں میڈیا میں آہی چکی ہیں۔ متحدہ مجلس عمل بھی وہ متحدہ مجلس عمل نہیں ہے جو 2002 میں تھی اس میں تین بڑی اہم جماعتیں جماعت اسلامی جے یو آئی اور جے یو پی ہیں جے یو پی دو حصوں میں منقسم ہو گئی ایک کی قیادت انس نورانی کررہے ہیں جب کے دوسرے گروپ کی قیادت صاحبزادہ ابو الخیر صاحب کررہے ہیں انس نورانی ایم ایم اے کے ساتھ ہیں۔ جے یو پی کی اب وہ بات نہیں رہ گئی جو کسی زمانے میں ہوا کرتی تھی ان کے پاس صرف لیڈر تو ہیں کارکنان نہیں ہیں یہ جماعت اسلامی کے سہارے اپنی انتخابی مہم چلائیں گے جماعت اسلامی ایک نظریاتی پارٹی ہے اس لیے اس میں ہر دور میں اختلاف رائے والی کیفیت تو رہتی ہیں لیکن انتخابا ت کے موقعوں پر تمام کارکنان دل و جان سے کام کرتے ہیں۔