الیکشن کمیشن کہاں جارہاہے؟

340

الیکشن کمشنرسندھ محمد یوسف خان خٹک نے کہاہے کہ متعدد امیدواروں کو انتخابی فارم بھی بھرنا نہیں آتا۔ یہ قانون سازی کیا کریں گے۔ انہوں نے شکوہ کیا ہے کہ فارم صحیح نہ بھرنے کی وجہ سے وقت ضایع ہورہاہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی بتانے لگے کہ ایم کیو ایم کے سوا کسی پارٹی نے اپنی ترجیحی فہرست نہیں دی ہے جن پارٹیوں نے ترجیحی فہرست جمع نہیں کرائی ان کے فارم مسترد کردیے جائیں گے۔ اسی طرح الیکشن کمیشن آف پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ سیاست دانوں کے اثاثوں کو عوام کے پہنچ سے دور رکھا جائے گا یعنی ان کے اثاثوں سے متعلق حلف نامے اور نامزدگی فارم ویب سائٹ پر لوڈ نہیں کیے جائیں گے۔ لیجیے الیکشن کمیشن نے بات وہیں پہنچادی جہاں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے قبل تھے۔ اب پھر وہیں کھڑے ہیں کہ امیدواران جو چاہے کریں ان کے بارے میں ووٹر کو کوئی معلومات نہیں دی جائے گی۔ الیکشن کمیشن نے یہ منطق دی ہے کہ گزشتہ ارکان پارلیمنٹ نے نامزدگی فارم اور اثاثوں کی تفصیل ویب سائٹ پر ڈالنے کی مخالفت کی تھی۔ یہ مرکز اور صوبے کے الیکشن کمیشن کے دو متضاد رویے ہیں جو ایک ہی روز کے اخبارات میں سامنے آئے ہیں ایک طرف مرکز کو فکر ہے کہ کسی طرح بھی امیدواروں کے اثاثوں اور نامزدگی فارم میں دی گئی تفصیلات ان کے ووٹروں تک نہ پہنچنے پائیں اور دوسری طرف سندھ کا الیکشن کمشنر اسمبلی رکنیت کے امیدواروں کی صلاحیت پر فکرمند ہے ہم سمجھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ درست نہیں کہ امیدواروں کے دعوؤں یعنی اپنی جائداد، قرضے، اثاثے وغیرہ کے بارے میں جو کچھ وہ لکھ رہے ہیں وہ عوام تک نہ پہنچے۔ اگر عوام اس بنیاد پر فیصلہ کریں کہ فلاں صاحب کو فلاں پارٹی نے نامزد کیا ہے تو پھر اچھا آدمی ہی ہوگا تو پھر یہ صاف شفاف انتخابات کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ جناب چیف الیکشن کمشنر صاحب عوام کو معلومات کے حق سے محروم نہ کریں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جو افراد رکنیت کے دعویدار ہیں ان کے پاس ابھی کیا اثاثے ہیں اور اسمبلی رکن بننے کے بعد کا ہوگا تو اس کی بنیاد پر ان کے بارے میں رائے قائم کی جاسکتی ہے۔ مزید یہ کہ اگروہ بینکوں کا مقروض ہے اور سالہا سال سے ایسا ہی ہے تو پھر ووٹر کو سوچنے کا موقع ملے گا کہ جو شخص بینک کا قرضہ نہیں دے رہا وہ امین کیسے ہوسکتا ہے۔ رکنیت ایک امانت ہے پارلیمنٹ میں پہنچ کر وہ شخص کیسے امانت داری کا مظاہرہ کرسکتا ہے جو پہلے ہی امانت میں خیانت کیے بیٹھا ہو۔ لہٰذا الیکشن کمیشن عو ام اور معلومات کے درمیان حائل نہ ہو۔ لوگوں کو صحیح معلومات ملنا ان کا حق ہے خصوصاً جب کہ ان معلومات کی بنیاد پر آنے والے پانچ برس کے لیے نمائندوں کے انتخاب یا انہیں مسترد کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ پرانے فارم اور نئے فارم کی جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی یہی الیکشن کمیشن چاہتا تھا کہ پرانا فارم بحال ہوجائے تو اب کیا ہوگیا ہے کہ پرانے فارم کی معلومات سے ووٹر کو محروم کیا جارہاہے۔ سندھ کے الیکشن کمشنر نے جو باتیں کی ہیں وہ بھی قابل اعتراض ہیں۔ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ امیدوار فارم بھرنے کی صلاحیت سے بھی عاری ہیں اور قانون سازی نہیں کرسکیں گے و ان کی نا اہلی کے لیے کوئی شق تلاش کریں کیا الیکشن کمشنر سندھ کو معلوم نہیں تھاکہ اسمبلیوں میں قانون سازی کس طرح کی جاتی ہے۔ ارکان حتیٰ کہ بسا اوقات وزرا تک اجلاس کے دوران سورہے ہوتے تھے ان کے برابر والا اٹھاکر بتاتا ہے کہ ہاتھ اٹھانا ہے وہ ہاتھ اٹھاکر کسی بھی نامعلوم قانون کے حق میں رائے دے کر پھر سوجاتا تھا۔ ایک ٹی وی چینل نے تو پنجاب میں خواتین حقوق بل کے بارے میں خواتین ارکان اسمبلی سے سروے کیا تو پتا چلا کہ خواتین ارکان اسمبلی بھی اس بل اور اس کے مندرجات سے واقف نہیں۔ قومی اسمبلی میں جو قانون بنتے ہیں وہ اسی طرح بنتے ہیں کچھ لوگ مسودہ تیار کرتے ہیں کچھ اسمبلی میں پیش کرتے ہیں بقیہ 90 فی صد ہاں یا ناں کہتے ہیں اسی طرح ربراسٹیمپ کہا جاتا ہے۔ الیکشن کمشنر سندھ کو اگر اس کی پریشانی ہے کہ فارم بھرنے میں تاخیر ہورہی ہے ارکان خود فارم نہیں بھرسکتے تو اس سلسلے میں کوئی قانون بنوائیں کہ جو امیدوار خود فارم نہیں بھرسکتے وہ نا اہل ہوں گے یا یہ استثنا دلوائیں کہ جو امیدوار فارم نہیں بھرسکتے وہ اپنے وکیل کے ذریعے فارم بھروائیں ویسے الیکشن کمیشن یہ بھی دیکھے کہ اس کے فارم میں تو کوئی پیچیدگی نہیں۔ ایک اور قابل توجہ بلکہ قابل اعتراض بات یہ ہے کہ الیکشن کمشنر سندھ نے متحدہ قومی موومنٹ (یہ واضح نہیں کہ کون سی والی) کی انتخابی مہم شروع کردی ہے کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کے سوا کسی پارٹی نے ترجیحی فہرست نہیں جمع کرائی ہے ارے کیا ترجیحی فہرست جمع کرانے کا وقت گزر گیا ہے اور کیا واقعی ترجیحی فہرست جمع کرائے بغیر کاغذات منظور نہیں ہوں گے جو انہوں نے کہاہے کہ ہم ان پارٹیوں کے امیدواروں کے کاغذات مسترد کردیں گے جنہوں نے ترجیحی فہرست جمع نہیں کرائی۔ ارے جب پارٹیوں کا اندرونی کام یا ہوم ورک ختم ہوجائے گا وہ حتمی فیصلے کرلیں گی تو ترجیحی فہرست بھی ارسال کردیں گی۔ الیکشن کمشنر کو کاغذات جمع کرانے کے عمل کے دوران یہ نہیں کہنا چاہیے تھا یعنی پارٹی کا نام لے کر کہ صرف اس نے جمع کرائی ہے الیکشن کمشنر کو یہ اختیار نہیں ہے کہ ان کی کسی جملے یا عمل سے کسی پارٹی کی حمایت کا تاثر ابھرے الیکشن کمشنر سندھ کے بیان سے ایسا لگا کہ اب بھی الیکشن کمیشن کا دوسرا بلکہ پہلا نام ایم کیو ایم ہی ہے انتخابی عملہ ایم کیوایم کا۔ انتخابی ڈیوٹی پر ایم کیو ایم لیبر ڈویژن متعین، محکمہ تعلیم سے لیے گئے لوگ بھی ایم کیو ایم کے کارکن ہوتے ہیں۔ الیکشن کمشنر سندھ اس جانب توجہ دیں امیدواروں کی اہلیت کا فیصلہ تو قانون کے مطابق ہی ہوگا سیاسی جماعتوں اور مرکزی الیکشن کمیشن کو بھی اس پری پول دھاندلی کا نوٹس لینا چاہیے۔